قارئین! آج بروز منگل 21 دسمبر 16 جمادی الاولی 1443 ہجری
نماز تہجد سے قبل یہ سطور آپ کی خدمت میں ارسال کی جا رہی ہیں۔نورانیت سے ناریت کا آغاز ابلیس ملعون نے راندہ بارگاہ الٰہی ہوتے ہی آسمان کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں میں زوال پذیر ہوکر شروع کر دیا تھا۔جو ناری ہونے کے باوجود نوریوں کی محفل میں برسہا برس رہا مگر اپنی فطرت تبدیل نہ کر سکا عربوں میں مشہور مقولہ ہے کل شی یرجع ال اصلِہِ۔ ہر شئے اپنی اصل(فطرت) کی طرف لوٹٹی ہے۔ ابلیس جس کا نام حارث تھا اور لقب عزازیل اور ابلیس سے مشہور تھا۔ مردود ہونے کے بعد قرب ملائکہ سے دوری کے بعد شیطان کے لقب سے مشہور ہو گیا۔ حارث کا لغت میں معنی کھیتی والا یا کاشت کار ہے۔ابلیس کا معنی نا اُمید ہے اور شیطان کا معنی دور ہے۔قرآن مجید نے اس کی گمراہی کی وجہ تکبر اور غرور بیان کی ہے ۔تاریخ عالم و آدم شاہد ہے کہ جس نے بھی زندگی میں تکبر کیا اور توبہ نہیں کی وہی نورانیت سے ناریت کی طرف زوال پذیر ہو گیا۔خواہ وہ قرین ملائکہ تھا یا ہم نشین انبیا و علما ،تنزلی کے سفر میں جس وائرس نے نبیوں کی اولادوں کو قاتل بنا دیا ،اس وائرس کا نام حسد ہے۔جس نے ابو البشر نبی حضرت آدم کے بیٹے قابیل کو اپنے سگے بھائی نبی ہابیل کا قاتل بنا دیا۔اسی حسد نے فرزندان نبی یعقوب سے نبی یوسف کو کنویں میں ڈلوا دیا۔اور اسی حسد نے ہمارے پیارے نبی ۖکی آل اولاد کوملاعین ذبح کرا دیا۔اس بھیانک سفر میں جاہل مرکب نے انسان کو درندہ بنانے میں بڑا منفی کردار ادا کیا ہے ۔اس وائرس سے ہر دوسرا انسان متاثر ہے۔حضرت عیسیٰ جو مسیح دوراں تھے۔انہوں نے فرمایا کہ میں باذن الٰہی نابینا کو بینا کر دوں گا۔بیمار کو شفا یاب کر دوں گا۔ مبروص اورجذامی کا علاج کر دوں گا۔ مگر مجھ سے جاہل مرکب کا علاج نہیں ہوتا۔جاہل مرکب اسے کہتے ہیں جو جاہل ہو مگراحساس جہالت نہ رکھتا ہو۔آج کی ان تین بھیانک وائرسز تکبر، حسد اور غرور سے نجات کی سبیل کی جائے تاکہ نہ بندہ شیطا ن صفت بنے نہ قابیل فطرت، نہ یزید سجیت۔آج کل کرونا وائرس کی نئی لہر اومیکرون نے پھر سے انسانیت کا سکون برباد کر دیا ہے۔امریکہ جیسے پڑھے لکھے معاشرے میں 40 فی صد لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ہنوز پہلی ویکسین بھی نہیں لگوائی۔اور دنیا بھر میں تو بہت سے لوگوں نے بوسٹر تک لگوا لی ہے۔پچھلے دو سالوں میں جنازوں کی اٹھتی ہوئی بہتات نے اور پیاروں کی ابدی جدائیوں نے بھی انسانوں میں خوف خدا پیدا نہیں کیا جو ہونا چاہئے تھا۔جنوں کے حالات کی تو ہمیں خبر نہیں۔ البتہ انسانوں کے زوال کا سفر جاری و ساری ہے۔اگرچہ وائرس بہت ہی زیادہ ہے تاہم قرآن و حدیث سے روحانی ویکسینز اور بوسٹر موجود ہیں۔جنہیں کم از کم 50 فی صد انسان لگانے کا سوچ بھی نہیں رہے ہیں۔اگر تواضع یعنی منکسر المزاجی اوررشک و خیر خواہی کی ویکسین ہر ایک لگوا لے اور اخلاقیات انسانی کے بوسٹر کی آمیزش کر لے تو وہ اگر مکمل شفا یاب نہ بھی ہوا تو کم از کم جز وقتی آرام و سکون پاجائے گا۔ویکسین کرونا کی ہو یا چیچک کے انجیکشن ہوں یا ملیریا ، ڈینگی کا ٹیکہ ہو یا فلو کا انجیکشن لگنے کے بعد عموما انسان کا ٹمپریچر بڑھ جاتا ہے۔دو سے تین دن میں نارمل ہو جاتا ہے تاہم تکبر ، حسد اور جہل مرکب کے انجیکشن پست فکر کے لوگوں کو جب لگتے ہیں تو ان کا بخار اترنے کا نام نہیں لیتا۔تاریخ گواہ ہے کہ انبیا و مرسلین، آئمہ طاہرین،سادات و علما، بزرگا ن دین اور مبلغین مذہب کو طعن و تشنیع کرتے ہیں ، سب و شتم کرتے ہیں۔ جھوٹے پروپیگنڈے کرتے ہیں اور ان کی زندگیوں کے چراغ بجھانے کے درپے ہوتے ہیں۔ اللہ کریم ہم سب کو جسمانی اور روحانی بیماریوں سے محفوظ و مورن و مامون فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
باقی آئیندہ سہ شنبہ(منگل)انشا اللہ تعالی
٭٭٭