قومی کرکٹ کے ایک کھلاڑی سے انٹرویو!!!

0
25
حیدر علی
حیدر علی

جب رپورٹر کو یہ اسائنمنٹ ملی کہ وہ جاکر پاکستانی ٹیم کے بلے باز فخر عالم کی انٹرویو لے تو اُسے یہ حیرانگی ہی ہوئی ، یہ ایسا ہی ایک اسائنمنٹ جیسے کسی رپورٹر کو یہ کہا جائے کہ وہ جیل میں جاکر کسی سیریل کلر سے مضافحہ کرے اور اُس کی انٹرویو لے، بہرکیف رپورٹر نے فخر عالم کو فون کیا اور اُس سے وقت مانگا،بلے باز نے انتہائی جوشیلے انداز میں اُسے جواب دیا اور کہا کہ اگر وہ چاہتے ہیں تو وہ اُسے پِک اپ کرنے کیلئے اپنی بگھی بھی بھیج سکتے ہیں،رپورٹر نے معذرت چاہ لی اور خود پہنچ جانے کو ترجیح دی،رپورٹر تو بلے باز کے محلے تک پہنچ گیا لیکن اُسے مکان تلاش کرنے میں کچھ دشواری ہورہی تھی ، اِسلئے اُس نے ایک شخص سے بلے باز کے مکان کا پتہ پوچھ لیا، شخص نے کہا کہ ہاں وہی پہلوان جی رپورٹر کو کچھ حیرانگی ہوئی اور اُس نے وضاحت کرتے ہوے کہا کہ ہاں وہی پاکستانی ٹیم کے بلے باز. شخص نے جواب دیا کہ ہاں…ہاں ہم لوگ اُسے پہلوان جی کے نام سے ہی پکارتے ہیں۔رپورٹر نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے بلے باز سے پوچھا کہ ” سر آپ کو پاکستانی ٹیم میں شمولیت اختیار کرنے میں کافی تگ و دو کرنی پڑی ہوگی، بااختیار لوگوں کے گھروں کا چکر لگانا پڑا ہوگا، کیا آپ اِس بابت کچھ بتائینگے؟”بلے باز نے جواب دیا کہ ” نہیں جی! مجھے کیوں وہ خود آئے تھے اور میرے بابا کو کہا تھا کہ ” اگر وہ اُنہیں دو آسٹریلین بھینس دے دیں تو وہ اُن کے بیٹے کو پاکستانی کرکٹ ٹیم میں شامل کر دینگے،میر ے بابا پٹواری ہیں، اُنہوں نے حساب کتاب کرکے کہ ہماری شمولیت سے اُنہیں کتنا منافع اور نقصان ہوگا ، دو آسٹریلین بھینس کی قیمت تیس لاکھ روپے ہوگی ، میری دوسال کی تنخواہ اور الاؤنس کی لاگت بیس لاکھ کے برابر ہوگی ، صنعت کاروں سے چندہ دس لاکھ کے قریب مل جائینگے. لیکن میرے بابا کونسلر کے لیئے انتخاب لڑنا چاہتے تھے ، اور میری پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں شمولیت اُس میں جلو بخش سکتی تھی، اِسلئے بابا نے فیصلہ کیا کہ مجھے پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں شامل ہوجانا چاہیے”لیکن پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں شامل ہونا ہر ایرے غیرے کا کام نہیں ، اِس کیلئے تجربے اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے.آپ بتائینگے کہ” آپ نے کرکٹ کھیل کی تربیت کہاں سے حاصل کی ؟رپورٹر نے استفسار کیا ” میں نے کرکٹ کھیل کی تربیت کہیں سے بھی حاصل نہیں کی البتہ میں بچپن میں گلی ڈنڈا کھیلا کرتا تھا، کرکٹ کھیلنا کوئی بہت زیادہ دشوار کام نہیں ، اگر کوئی اِسے کھیلتے ہوے دیکھتا ہو تو وہ خود بخود سیکھ سکتا ہے اور پھر آپ کو سمجھنا چاہیے کہ ہر ٹیم میں کچھ ایسے کھلاڑی ہوتے ہیں جو بیٹنگ صحیح طور پر نہیں کرسکتے ہیں جیسے روہت شرما اور ویرت کوہلی جو زیرو رن پر آؤٹ ہوجاتے ہیں، اور پھر ایسے کھلاڑی ہوتے ہیں جو بولنگ کرنے میں زیرو ہوتے ہیں ، فیلڈنگ کرنا بھی ہر ایک کی بس کی بات نہیں، ہر ایک سے کیچ مِس ہوجاتا ہے تو آپ کو یہ جاننا چاہیے کہ میں نہ ہی بیٹنگ، نہ ہی بولنگ اور نہ ہی فیلڈنگ اچھی کرنے والوں میں شامل ہوں ، اِسی وجہ کر ہمارے بابا نے دو بھینسیں دے کر مجھے پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم میں شامل کر وایا تھا،پاکستانی قومی ٹیم میں مجھ جیسے بہت سارے کھلاڑی موجود ہیں جن کے ابوؤں نے اپنا مکان دے کر ، کسی نے گاڑی خرید کر پی سی بی کے کسی ممبر کو بطور تحفے دے کر قومی ٹیم میں شامل کروایا ہے۔ پی سی بی کے ممبرز بلکہ ایسے کھلاڑیوں سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ کہیں وہ اُن کا بھانڈا نہ پھوڑ دیں بعض افراد نے تو گاڑی پی سی بی کے رکن کو دے دی ہے، لیکن گاڑی کے کاغذات اپنے پاس ہی رکھا ہے، پی سی بی کے رکن کو یہ اطمینان ہے کہ مذکورہ کھلاڑی سالوں سال تک پاکستانی قومی ٹیم کی نمائندگی کرتا رہیگا، حتی کہ گاڑی کی انجن جواب دے دیگی.” بلے باز نے جواب دیا۔
شائقین کرکٹ کو یہ شکایت ہے کہ آپ کی فیلڈنگ انتہائی کمزور ہے بعض اوقات تو آپ گردن گھما کر بال کو بھی نہیں دیکھتے ہیں اور بال آپ کے دائیں یا بائیں سے گزر جاتی ہے ” رپورٹر نے پوچھا” اِس کی وجہ یہ ہے کہ میری گردن ٹیڑھی ہے ، اور ڈاکٹر نے جھٹکے سے گردن گھمانے سے منع کیا ہے،” اچھا پہلوان جی آپ یہ بتائیں کہ بعض اوقات میچ یکلخت بارش یا کسی اور وجہ کر ختم ہوجاتا ہے تو ہمارے قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کا اِس پر کیا تاثرات ہوتا ہے؟” رپورٹر نے پوچھا،”سر جی! کھلاڑیوں کیلئے اِس سے بڑھ کر خوشی کی او ر کیا بات ہوسکتی ہے. نہ بانس رہے نہ بجے بانسری . جو بھی ہوا اﷲ تعالی کی وجہ کر ہوا . اُنہیں گھر جانے کیلئے محفوظ راستہ مل جاتا ہے ”
” سنا جاتا ہے کہ قومی ٹیم کے کھلاڑی پیر و مرشد سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں ، اُنہیں ہمیشہ یہ توقع ہوتی ہے کہ اُن کے پیر جی اُن کا بیڑا پار کرادینگے اور اُنہیں پریکٹس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں. کیا آپ اِس چہ مگوئیاں کی تائید کرتے ہیں؟”
”پیر و مرشد کیا ؟ اُنہیں بھنک مل جائے تو وہ سنیاسی، پنڈت اور بھگوان داس کی آشیر باد حاصل کرنے کیلئے نیپال میں ہمالہ کے دامن اور بنارس کی مندر میں جانے سے بھی گریذ نہیں کرتے. اُنہیں بس علم ہوجائے کہ کس پیر یا پنڈت کا کرشمہ عروج پر ہے. پیر جی سلہٹ یا کلکتہ سے ہر کھلاڑی سے رابطے میں رہتے ہیں . اُن کا دعوی ہوتا ہے کہ پچاس ہزار کی رقم بھیجو اور سنچری بنالو، اُن کا جادو بال کو آسمان پر پہنچادیتا ہے اور پھر وہاں سے بائونڈری لائن کو عبور کردیتا ہے،صرف میچ میں شکست یا جیت کیلئے جادو ٹونا نہیں ہوتا بعض کھلاڑی تو اپنی خوبصورت شریک حیات ڈھونڈنے کیلئے بھی اُن سے رابطے میں رہتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here