محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے آج آپکی خدمت میں موضوع کے اعتبار سے محترم غلام نبی قادری نوری صاحب کا مقالہ پیش خدمت ہے یہ دنیاکے ان عالموں سے ہیں جنہوں نے انتہائی کم عمری میں جو تحقیق کی مقالہ جات لکھے قابل ستائش ہیں میں نوری صاحب کا بہت بڑا مداح ہوں نہ صرف اس وجہ سے کہ ان سے میرا گہرا روحانی تعلق ہے میرے پہلے باقاعدہ استاد محترم اس علم میں جناب رئیس قادری مرحوم تھے تو اس سلسلے سے میرا قدیمی تعلق ہے اور رہیگا ۔اب مقالہ پڑھئے ان کا فیس بک پیج فالو کریں۔ اب آپ علم الوظائف سے کچھ ایسی باتیں جن کے بارے میں جاننا ہر ایک کے لیے ضروری ہے
پہلا سوال! وظیفہ کسے کہتے ہیں ؟ کسی بھی اللہ کے نام ، آیت یا کسی بھی کلام کو ایک خاص تعداد ،ترتیب و مقصد کے لیے پڑھنا وظیفہ کہلاتا ہے ۔ اگر وظائف کے مروج طریقے کو حضور ۖ یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کی زندگی میں تلاش کریں تو ہمیں ایسے باقائدہ وظائف پریکٹس میں نارملی طور پر نہیں ملتے یعنی جن میں شرائط مقاصد جگہ پرہیز وغیرہ مقرر ہو۔ تو پھر سوال یہ یے کہ کیا ایسے وظائف کرنا شرعا جائز ہیں ؟ تو اسکا جواب کچھ یوں ہے کہ بالکل جائز و حلال ہیں ! شرعا اگر وظیفہ کے طریقے ترتیب میں کوئی غیر شرعی شرط نہ ہو ، مذہب مخالف کوئی کام نہ ہو طریقہ کار حرام و گناہ والا نہ ہو تو وظائف کرنے جائز ہیں، ضمن میں ایک اہم سوال آتا ہے کہ مختلف کاموں کے لیے مختلف وظائف آتے کہاں سے ہیں یعنی بنتے کیسے ہیں؟* وظائف کے بننے کے سلسلہ میں چند اہم صورتیں ہوسکتی ہیں۔
1:کچھ اللہ کے ولی کسی خاص ترتیب یا طریقے سے وہ آیت ، اسما یا حروف پڑھیں جو ان کو بذریعہ کشف و القا یا خواب میں بتائے جائیں پھر اولیا نے ان وظائف کے نتائج دیکھے جیسے حزب البحر شریف وغیرہ ۔ پھر انکو سینہ بہ سینہ اپنے متعلقین کو تعلیم کیا کہ فلاں مقصد کے لیے فلاں وظیفہ فلاں طریقے سے کریں تو فلاں نتیجہ اخذ ہوگا۔
2 :کچھ لوگ علم الاعداد و علم نجوم یا علم جفر وغیرہ کے ماہر ہوتے ہیں جو نام کے حروف ، مسلہ کے حساب ، تاریخ پیدائش یا زائچہ کو دیکھ کر کچھ خاص قوانین کے تحت اعداد نکال کر انکے مطابق یا انکے مخالف اسم الہی، یا حرف ضرورت مند کو دیتے ہیں ساتھ شرائط پرہیز وغیرہ بتاتے ہیں کہ اس وظیفے کو کس وقت و کس طرح کرنا یے
3 :وظائف کی تیسری قسم میں جو اشخاص ماہر روحانیات و صاحب نسبت و روشن باطن والے ہوتے ہیں یعنی جن پر اللہ کا خاص انعام کشف وغیرہ کی صورت میں ہو وہ روحانی دنیاوں میں جھانک کر پھر مریض/سائل کی روحانی کیفیت و مسلہ کی کیفیت کو روحانی نظر سے دیکھتے ہیں پھر مختلف حالتوں کو مدنظر رکھتے ہیں کہ امر الٰہی میں فلاں سائل کے متعلقہ کیا اشارہ یے پھر اسی مطابق کوئی آیت ،ورد اسم یا حرف بطور وظیفہ تجویز کردیتے ہیں۔ جس میں مسلہ مطابق یا تو اس صاحب مقام کی روحانیت کی نسبت سے عالم اسفل جنات وغیرہ یا عالم علو ست تجلیات انوار الہی سائل/مریض کے لیے روحانی امداد فراہم کرتی ہیں.
4. 4. چوتھی اقسام میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو روحانیت کی اعلی درجوں پر فائز ہوتے ہیں ، وہ عالم روحانیات میں جھانک کر سائل/مریض کے متعلقہ مسلم علما جنات وغیرہ یا بزرگان دین کی ارواح مبروک سے سائلین کے بابت استمداد لیتے ہیں پھر انکی تجویز سے بھی کوئی آیت اسم یا حرف کسی مخصوص طریقے سلیقے شرط کے ساتھ تجویز کردیتے ہیں ۔ اس کی تفصیل و تمہید لمبی ہے یہاں محض تعارف کے طور پر عرض کردی ہے ۔ یہ چار طریقے ہیں جن سے وظائف زیادہ تر وجود میں آتے ہیں۔.
سوال یہ بھی کہ کیا وظائف کی اجازت لینا ضروری ہوتا ہے؟*
تو اسکا جواب یوں ہے کہ ہر وظیفے کے لیے اجازت لینا لازم امر ہے ! مسنون وظائف جو کتب احادیث میں موجود ہوں ان کی اجازت بطور امتی تمام مسلمانوں کو حضور ۖ کی نسبت سے قیامت تک ہی ہے ۔ مگر جو وظائف مسنون نہیں ان کے لیے اجازت درکار ہوتی ہے ، کتابوں رسالوں فیس بک یوٹیوب سے دیکھ کر یا ایسے بندے سے وظائف لیکر ہرگز نہیں کرنے چاہیے جن کو انکے علوم کی سدھ بدھ نہ ہو۔
ایک مسلہ یہ بھی یے کہ بعض اوقات کوئی بندہ خود کوئی وظیفہ کرتا ہے اسکا کام ہوجاتا ہے تو وہ دوسروں کو بھی وہی وظیفہ تجویز کردیتا ہے کہ میں نے فلاں وظیفے سے فلاں کام لیا ہے تم بھی یہ کرلو!
یاد رکھیں یہ بہت زیادہ خطرناک ترین کام ہے ۔ ایسا بھول کر بھی نہیں کرنا چاہیے ۔ جو کوئی بھی وظیفہ دیا جاتا یے اسکی اپنی روحانی سختیاں ہوتی ہیں ، کچھ اپنی روحانی کیفیات ہوتی ہیں! جن کا وزن کوئی روحانی شخصیت ہی اٹھا سکتی ہے یعنی کوئی ماہر روحانیت ہی اپنے اوپر برداشت یا انکو سمبھال سکتا یے جو بندہ روحانی پچیدگیوں سے واقف نہیں وہ کسی کو وظیفہ تجویز کرے تو اسکا وظیفہ دینا ایسے ہی یے جیسے اس نے اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے موت کا کھیل شروع کردیا ۔
کیونکہ اگر وظیفہ دینے والا بندہ روحانی لحاظ سے مکمل عالم و طاقتور نہ اور روحانی پچیدگیوں کو نہ سمجھتا ہوتو وہ سائل /مریض کے ساتھ ہونے والے روحانی مسلے روحانی وبال و رجعت سے بچ جائے گا ۔ لیکن اگر وظیفہ دینے والا بندہ کوئی عام انسان یا کم علم و کمزور روحانی قوت کا حامل ہوگا تو جس کو وہ وظیفہ دیا گیا اسکے وظیفہ پڑھتے ہی اسکے ساتھ جتنے بھی روحانی مسائل مثلا جادو جنات کا اثر رجعت بندش نظر حسد و نظر بد کی فریکوینسیز یا عملیات سفلی وغیرہ کے اثرات ہونگے وہ سب مریض کو بھی بڑھ جائیں گے ساتھ وظیفہ دینے والے کی طرف بھی رجوع کریں گے اس طرح وظیفہ بتانے والے کی خود کی زات بیوی بچے اس موت کے کھیل کے اندر پھنس جاتے ہیں ۔ اس لیے از خود کسی کو وظیفہ دینے سے مکمل گریز رکھنا چاہیے
سوال یہ ہے کہ وظائف کیسے اثر کرتے ہیں!
تو وطائف میں 5 قسم کے محرکات ہوتے ہیں جو اثر کرتے ہیں یعنی 5 چیزوں سے وظائف کام کرتے ہیں۔
1. کلام کی اپنی قوت اور برکت ہوتی یے اسکی اپنی تاثیر ہوتی ہے۔
2. وظیفہ کے بعد دعا مانگی جاتی ہے ۔ ایک سادہ دعا کرنا الگ معنی رکھتا یے جبکہ کوئی کلام الہی آیت یا اسم کسی مخصوص طریقے شرط و قوت کے ساتھ پڑھ کر جو دعا مانگی جاتی ہے اسکے قبولیت کے چانسز بہت زیادہ قوی ہوتے ہیں۔
3. ہر وظیفہ کی کچھ خاص وائبریشنز/ فریکوینسیز ہوتی ہیں ، اسکی اپنی ایک تاثیر ہوتی ہے ، ایک خاص اصول یا ایک خاص سمت میں ۔ اس لیے صاحب علم حضرات باقائدہ دیکھ کر وظائف دیتے ہیں اس طرح وظیفہ کی مخصوص فریکوینسیز آپکے کاموں کو پورا کرنے میں آپکی مدد کرتی ہیں (جسے عام طور پر موکلات کہا جاتا ہے)
4. اس مرحلے میں چوتھی شے یہ یے کہ جو آپکو وظیفہ دینے والا استاد/مرشد/معالج یے اسکی اپنی روحانی طاقت و نسبت اور مریض کے ساتھ تعلق وظیفے کے پیچھے عامل کی توجہ کا اثر کام کرتا ہے۔ وہ سائل/مریض کے گرد اپنی روحانیت سے حصار قائم رکھتا ہے۔ ساتھ وظیفہ پڑھنے والے کی روحانیت کو متحرک کرتا ہے۔
5. پانچھواں اصول وظیفہ کرنے کے پیچھے لا آف اٹریکشن ہے یعنی وظیفہ کرنے والے کی نیت اور توجہ و اعتقاد ہے۔ لاآف اٹریکشن یہ ہوتا ہے کہ جیسا آپ یقین رکھتے ہیں ویسا ہی آپکو فائدہ ہوتا یے۔ یہ پانچ محرکات ہیں جو کسی بھی وظیفے کو کامیاب کرتے ہیں ان میں سے ایک بھی کم ہوتو وظیفہ کا اثر نہیں ملتا ۔
سوال وظیفہ کیسے کرنا چاہیے اسکا اچھا طریقہ کیا ہے؟ سب سے پہلے تو وظیفہ اجازت لیکر کرنا چاہیے! دوسری بات وظیفہ یا تو مخصوص قائدے وقت اور طریقے کے مطابق کریں جو وظیفہ دینے والے نے تجویز کیا ہو لیکن اگر کوئی خاص وقت جگہ یا قائدہ شرط نہ ہوتو میرے مطابق فجر سے لیکر سورج کے طلوع ہونے اور عصر سے لیکر مغرب کے درمیان تک کا وقت انتہائی موثر ہوتا یے ۔ فجر سے طلوع شمس تک آسمان سے خاص فریکوینسز میں روحانیت نازل ہوتی ہے جو ہمارے لاشعور پر اثر کرتی ہے یکسوئی نصیب ہوتی ہے ، اس وقت میں بیماروں کو شفا , پریشان حالوں کو راحت ملتی ہے جن کو نفسیاتی مسائل ہوں انکو شفا ملتی ہے جن کو نیند کے مسائل ہوں انکو نیند آجاتی ہے حدیث شریف کے مطابق رزق کی تقسیم کا وقت ہوتا ہے ۔ ایک قول ہے کہ یہ جنت کے اوقات میں سے وقت ہے ۔ تو آپ ہر وہ وظیفہ اس وقت میں کیجیے جس وظیفے می وقت کی قید یا پابندی نہ ہو ۔ ویسے بھی اس وقت کے بہت سے روحانی اور نفسیاتی فوائد ہیں !
اہم بات جب بھی وظیفہ کریں پھر وظیفہ کے بعد خوب تسلی توجہ یکسوئی اور یقین و اعتقاد کے ساتھ دعا مانگیں اور دعا میں اپنا مقصد یا حاجت بار بار دہرائیں ۔ کیونکہ جو چیز بار بار دہرائی جائے وہ ہمارے لاشعور سے ہوکر نکلتی ہے جسے کہتے ہیں دل سے دعا نکلنا ۔ جب دعا لاشعور سے ہوکر نکلے گی تو اسکی قبولیت یقینی ہوتی ہے۔
مذید اہم بات!
آپ نے دوران وظیفہ نیت یہ رکھنا ہوتی ہے کہ میری مشکل آسان ہو یا فلاں مقصد حل ہو! یا فلاں حاجت پوری ہو بس!
یی نیت ہرگز نہیں رکھنی کہ فلاں کام ایسے پورا ہو یا فلاں مشکل فلاں طریقے سے فلاں راستے سے حل ہو یعنی قید نہیں لگانی کہ حل کیسے ہو!
ساتھ دوران وظیفہ اپنا دل و دماغ کھلا رکھیں تاکہ آپکو وہ سب راستے سمجھ آسکیں جن سے قدرت آپکی مدد کرے گی یا مدد بھیج چکی ہے!
اگر آپ قدرت کے کام میں مداخلت کرتے ہوئے زریعہ بھی خود ہی سوچیں گے تو عین ممکن ہے آپکا مقصد پورا نہ ہو قدرت اسے کسی اور زریعہ سے پورا کرنا چاہتی ہو۔
سب سے آخری بات
حسن تقدیر یعنی صرف وظیفہ نہیں کرنا بلکہ اسکے ساتھ دنیوی طور پر ساتھ جتنے اسباب ہیں انکو بھی اختیار کرنا ہے عالم اسباب میں دنیوی جتنے بھی اسباب ہوں ان کو لازم استمعال کریں قدرت ان اسباب میں سے آپکی غائبانہ مدد کرے۔
امید ہے کہ یہ ساری تفصیل آپکے لیے بہت کارآمد ہوگی۔ ان شا اللہ تعالی مذید بھی کچھ موضوعات پر لکھوں گا اپنی دعاوں میں لازم شامل رکھا کریں کیونکہ خلوص قلب سے کسی کو دعا میں یاد رکھنا بھی اسکے ساتھ روحانیت تعلق و نسبت کا ایک زریعہ ہے۔مزید ایسے امور پر معلوماتی تحریروں اور عملیات وغیرہ کے موضوعات پر کتب پڑھنے کے لیے میرا گروپ بزم نورانی اکیڈمی جوائن فرماسکتے ہیں،محترم قارئین کرام یہ مقالہ نوری صاحب کی قابلیت انکی اس علم پر گرفت اور علمی مدارج ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے ،آپ نوری صاحب سے میرا حوالہ دیکر اس مقالے سے متعلق تشریحات جان سکتے ہیں، میرا مقصد ترویج علم ہے ،کسی طرح بھی کی جائے مقالے میں بہت کچھ سادہ فہم انداز میں بیان کردیا گیا ،مجھے کچھ روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں ۔
٭٭٭