خوش آمدید !!!

0
5
عامر بیگ

ایران میں ہر عمر کی خاتون کو مانتو اور سر پر اسکارف پہننا لازم ہے مانتو ایک عبایہ ہے جیسے ہمارے ہاں کی پردہ دار خواتین ایک لمبا برقعہ استعمال کرتی ہیں ایرانی حکومت انقلاب ایران کے وقت سے لیکر اب تک مانتو کے بارے میں بہت سختی سے عمل پیرا ہے اگر کوئی عورت بغیر مانتو کے بازار میں نظر آ جائے تو پاسدران انقلاب ( ایرانی پولیس ) اس عورت کو پکڑ کر حوالات میں پہنچا دیتی ہے جہاں سے کچھ عرصہ کے بعد اس یقین دہانی پر ہی چھٹکارا ملتا ہے کہ آئندہ وہ ایسی حرکت نہیں کرے گی بالکل ایسے ہی جیسے طالبان داڑھی بڑھا کر آنے پر چھوڑ دیا کرتے تھے، ایرانی معاشرہ اب اس پابندی کو اپنا چکا ہے شروع شروع میں ایسے بہت سے کیسز نظر آتے تھے کہ پاسداران انقلاب کو حرکت میں آنا پڑتا تھا اب پھر سے حالات اسی جانب جانے کو ہیں جس کی مثال کچھ عرصہ قبل ایک ایرانی لڑکی کے سر عام سر سے اسکارف اتارنے اپنے بال کاٹنے اور مانتو بھی اتار پھینکنے پر پاسداران انقلاب نے اس لڑکی گرفتار کیا حوالات میں اس پر تشدد ہوا اور وہ جان سے گئی اس پر ایران میں ملک گیر احتجاجی مظاہرے ہوئے جسے ایرانی حکومت نے چھپانے کی بہت کوشش کی مگر بی بی سی کے علاوہ اور بھی کئی غیر ملکی میڈیا ہاوسز نے رپورٹ کیا اب پھر ایران کی ایک یونیورسٹی کی طالبہ نے وہاں کے معاشرے کے حساب سے احتجاج کا بالکل اچھوتا طریقہ اختیار کیا ہے جس کے بارے میں تفاصیل ابھی ادھوری ہیں، اس نے کپڑے اتار کر صرف ٹو پیس کیٹ واک کی ہے جو کہ وائرل ہو رہی ہے اور سنا کہ اس پاداش میں طالبہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے پیرس میں عورتوں کے ٹاپ لیس یا برہنہ اجتماعی احتجاجی مظاہرے آئے دن سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن ایران جیسے معاشرے میں جہاں پردے کی اتنی سختی ہے وہاں اس طرح کا احتجاج ضرور کوئی معنی رکھتا ہے راقم سال بھر ایران میں گزار چکا ہے ایرانی معاشرہ اندر سے اتنا ہی ننگا ہے جتنا کہ کوئی بھی ہو سکتا ہے بس مصنوعی مانتو چڑھا ہوا ہے انقلاب ایران سے پہلے میرے مرحوم چچا سراج بیگ جو کہ یو ایس آرمی میں میجر ریٹائرڈ ہوئے ۔ دوران سروس جب وہ تہران ڈیپوٹیشن پر تھے اسکی کہانیاں سناتے رہتے تھے کہ ایرانی معاشرہ اس قدر آزاد خیال تھا کہ شرابی اگر مدہوش ہو کر گر پڑتا تو پولیس اس کی جیب سے شناخت معلوم کر کے اسے گھر تک چھوڑنے آتی عورتوں کے اجتماعی حمام تو ابھی بھی موجود ہیں ایک واقعہ بارے عینی شاہد ہوں کہ ایک روڈ سائڈ ایکسیڈینٹ میں راہ چلتی خاتون کے گرنے پر معلوم ہوا کہ اس نے صرف مانتو ہی پہنا ہوا ہے راقم کے امسال چھپنے والے افسانوی مجموعے کا نام بھی مانتو ہے جو حلقہ ارباب زوق پسکاٹوے نیو جرسی نے پبلش کیاہے جس میں ایک افسانہ مانتو کے نام پر بھی ہے کہ ایرانی معاشرے کے کلچر رہن سہن اور نظریات بارے افسانوی انداز میں عکاسی موجود ہے ایران ایک پرانی تہذیب ہے جہاں کلچر ہے شیریں زبان لچک سہولت اور ادب و آداب کو اہمیت حاصل ہے انقلاب کی سختیاں ایرانی معاشرے کا کلچر نہیں ہیں اور نہ ہی تاریخ میں اسکا زکر ملتا ہے ایسے نرم خو ماحول والی پرانی تہذیب کو اس طرح سے پابندیوں کی نظر کرنا سمجھ سے باہر ہے گھٹن زدہ ماحول میں پہلے قطرے کو خوش آمدید۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here