یورپی یونین کا فلسطین کو ریاست تسلیم کرنیکا فیصلہ

0
39

نیویارک (پاکستان نیوز) اسرائیل کی شدید مخالفت کے باوجود تین یورپی ممالک اسپین، آئرلینڈ اور ناروے نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر لیا ہے۔ اسرائیل نے تینوں ملکوں کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔اقوامِ متحدہ کے رکن 193 ممالک میں سے اب 140 سے زائد ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں۔ ان ممالک میں روس، چین اور بھارت جیسے بڑے ممالک بھی شامل ہیں۔اسپین کے وزیرِ خارجہ کے مطابق 193 میں سے اب 146 ممالک فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں۔اسپین، آئرلینڈ اور ناروے نے اپنے فیصلے کی بنیاد غزہ میں آٹھ ماہ سے جاری جنگ بند کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔اسپین اور آئر لینڈ یورپ کے بڑے اور سیاسی طور پر زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک ہیں جنہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے۔ قبل ازیں یورپی یونین کے 27 ممالک میں سے سوئیڈن، پولینڈ، قبرص، ہنگری، چیک ری پبلک، رومانیہ، بلغاریہ اور سلواکیہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں۔برطانیہ اور آسٹریلیا کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کے رکن ممالک مالٹا اور سلوینیا بھی حالیہ مہنیوں میں اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کر سکتے ہیں۔فرانس نے کہا ہے کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جائے جب کہ جرمنی، اسرائیل کا ایک مضبوط اتحادی ملک ہے۔ اسی طرح امریکہ نے بھی یک طرفہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ مسترد کیا ہے۔ امریکہ کے مطابق مسئلے کا ‘دو ریاستی حل’ صرف مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔قبل ازیں ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے اپنے خطاب میں سپین کے وزیرِ اعظم پیڈرو سانچیز نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ان کے بقول یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو کسی کے خلاف نہیں ہے، کم از کم اسرائیل کے تو بالکل خلاف نہیں ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ فیصلہ حماس کو یکسر مسترد کرنے کا بھی عکاس ہے۔واضح رہے کہ وزیرِ اعظم سانچیز نے گزشتہ ہفتے پارلیمان کے سامنے بھی اس فیصلے کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔ انہوں نے یہ اعلان کرنے سے قبل کئی ماہ تک یورپی ممالک اور مشرقِ وسطی کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے اور غزہ میں قیامِ امن کے بارے میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔اسپین کے وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ اسپین اس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا جس میں غزہ اور مغربی کنارہ شامل ہو گا جب کہ اس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو گا۔ اس کے ساتھ انہوں نے واضح کیا کہ وہ فلسطینی نیشنل اتھارٹی کے ماتحت اس متحدہ ریاست کو تسلیم کرے گا۔انہوں نے کہا کہ اسپین کسی بھی صورت میں 1967 کے بعد کی فلسطینی سرحدوں کو تسلیم نہیں کرے گا۔ اگر فریقین اس پر راضی ہو گئے تو وہ انہیں تسلیم کر سکتا ہے۔آئر لینڈ کے وزیرِ خارجہ مائیکل مارٹن نے کہا ہے کہ یورپی یونین غزہ میں اسرائیلی جنگ پر اسرائیل کے خلاف پابندیوں پر غور کر رہا ہے،اسرائیل عالمی عدالت کا فیصلہ نہیں مانتا تو وہ پابندیوں کیلئے تیار رہے، فلسطین کو ایک آزاد ریاست تسلیم کرنے والیاقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد 145ہوگئی ہے ،ڈنمارک کی پارلیمنٹ نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کی قرارداد مسترد کردی ہے ،فرانس کی پارلیمنٹ نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کیلئے بلائے گئے اجلاس کے دوران فلسطینی پرچم لہرانے والے رکن اسمبلی کو دو ہفتوں کے لئے معطل کر دیا ہے، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ اس طرح کا قدم “جذبات” پر مبنی نہیں ہونا چاہیے،یورپی یونین اور عرب ممالک کے وزرا خارجہ نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ عالمی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنائے، رفح سمیت غزہ میں جنگ بند کی جائے اور انسانی امدا دکی فراہمی یقینی بنائی جائے، یورپی ذرائع کے مطابق یورپی وزرا خارجہ کے اجلاس میں اسرائیل پر پابندیوں کا معاملہ بھی زیر بحث آیا ،کئی یورپی سفیروں نے کہا ہے کہ برسلز نے اسرائیل کیلئے الٹی میٹم جاری کرنے کی تیاری کرلی ہے ، اسرائیل عالمی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرتا تو اسے معاشی تعلقات کے خاتمے سمیت دیگر پابندیوں کیلئے تیار رہنا پڑے گا ، ذرائع کے مطابق آسٹریا اور جرمنی کے علاوہ تمام ممالک کے وزرا خارجہ اس تجویز سے متفق نظر آئے ۔شدید تنقید کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتین یاہو نے اپنی متنازع ٹوئٹ پر معافی مانگ لی۔عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنے بیان میں غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا میں غلط تھا، جو باتیں میں نے کہیں وہ مجھے نہیں کرنی چاہئیں تھیں۔نیتین یاہو کا کہنا تھا میں معذرت خواہ ہوں اور سکیورٹی اداروں کے تمام سربراہان کی مکمل حمایت کرتا ہوں، اسرائیلی وزیراعظم نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے متنازع ٹوئٹ بھی ڈیلیٹ کر دی۔یاد رہے کہ نتین یاہو نے اپنی ٹوئٹ میں 7 اکتوبر کے حماس کے حملے کی ناکامی پر سکیورٹی اور انٹیلی جنس سروسز کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے حملوں میں 1400 سے زائد اسرائیلی ہلاک اور 2000 کے قریب زخمی ہو گئے تھے جبکہ 229 کے قریب اسرائیلیوں کو حماس نے یرغمال بھی بنا لیا تھا۔حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے اسرائیلی خاندانوں کی جانب سے بھی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو شدید تنقید کا سامنا ہے اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ان کے اہلخانہ کی رہائی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔واضح رہے کہ اسرائیلی فورسز کی جارحیت سے اب تک 36 ہزار سے زائد نہتے فلسطینی شہید ہو چکے ہیں ،81 ہزار سے زائد زخمی ہیں ، رفح میں حالیہ کارروائی کے دوران اموات 45سے تجاوز کر گئی ہیں ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here