قارئین وطن! جب میرا کالم میرے قارئین تک پہنچے گا امریکہ کا الیکشن ہو چکا ہوگا دو بڑی پارٹیوں کے درمیان کانٹے دار ہوتا ہے ریپبلیکن اور ڈیموکریٹ لیکن ان کے علاوہ کئی چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بھی اس میدان کارساز میں کودتی ہیں لیکن مقابلہ ڈیموکریٹ اور ریپبلیکن کے درمیان ہی ہوتا ہے ریپبلیکن کا امیدوار اس بار ڈونلڈ ٹرمپ اور کمالہ ہیرس ہے ڈیموکریٹ کی، ٹرمپ ایک بار امریکہ کا صدر رہ چکا ہے لیکن کرپشن اور سکینڈل سے بھر پور دور گزارا اور دوسری امیدوار کمالہ ہیرس ایک بہت بڑی کامیاب وکیل ہے جس نے اپنا کیرئیر امریکہ کی سب سے بڑی ریاست کیلیفورنیا کی اٹارنی جرنل سے شروع کیا اور آجکل امریکہ کی نائب صدر ہے، تعلیمی معیار اور قابلیت کے اعتبار سے ٹرمپ سے کئی گناہ بڑی ہے اور ٹرمپ اس کے مقابلہ میں بہت بونا قد ہے اب دیکھئے نومبر کو کس کے سر پر سہرا سجتا ہے،قارئین وطن! امریکہ میں آباد پاکستانی ذہنی طور پر ریپبلیکن کی طرف جھکائو رکھتے ہیں اور ڈیموکریٹس کو بھارت کا ہمنوا اس سلسلے کو سمجھنے کے لئے شہر کے نامور امیگریشن کنسلٹنٹ اور لا فرم کے پارٹنر آصف چوہدری صاحب نے مجلس کا اہتمام کیا جس میں ماڈریٹر کی ذمہ داری چینل کے امریکہ میں بیورو چیف ناصر قیوم صاحب تھے اور شرکا میں راقم کے علاوہ ڈاکٹر شاہد نواز، چغتائی ،ملک منصور مشہور ٹرانسپورٹر ، ملک سجاد اعوان لانگ آئی لینڈ کے مشہور بزنس مین ، نواب زادہ میاں ذاکر نسیم دیپالپوری کنسٹرکشن کنگ ، زاہد جدون صاحب پرفیوم ڈسٹریبیوٹر ، شورش پاکستان سلیمان کھوکھر صاحب اور پاکستان سے آئے ہوئے مشہور وی لاگر راجہ ابراہیم صاحب کے علاوہ بہت سے احباب ایسے تھے جن کا نام کمزور حافظہ کی وجہ سے اس اعمال نامہ میں شامل نہیں ہو سکتا دو درجن شرکا کی مجلس کو میزبان آصف چوہدری صاحب نے بار بکیو کے علاوہ زعفرانی کھانوں سے دسترخوان سجایا ہوا تھا کاملہ ہارس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے بہت بڑی تقسیم تھی نواب زادہ میاں ذاکر نسیم صاحب ملک سجاد ایمن آبادی شاہد نواز چغتائی سلیمان کھوکھر اور ناصر قیوم صاحب کا گروپ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف تھا اور ان کا کہنا تھا کہ ریپبلیکن پاکستان کے حق میں اچھے ہیں جبکہ ملک منصور صاحب زاہد جدون اور خادم کا کہنا ہے کہ کاملہ ایک پروگریسو امیدوار ہے اور ہم جن کے بچے اور ان کے بچے جو امریکن شہری ہیں کو مقامی طرز سیاست پر بھی نظر رکھنی چاہیے اور سب سے بڑی بات کہ امریکن پالیسی میکر خواہ وہ ریپبلکن ہو یا ڈیموکریٹ صرف اپنے مفادات کا دوست ہے ان کو کوئی مطلب نہیں کہ پاکستان میں نواز چور کی حکومت ہو یا زرداری ٹھگ کی ان کے نزدیک بس فوجی جنتا کا ہاتھ اوپر رہنا چاہیے جن سے ان کے مفادات کو کوئی زق نہ پہنچے بس اس بحث مباحثہ کے بعد تقریب کا احتمام اس پر ہوا کہ ہر شہری کی اپنی منشا ہے جس کو مرضی ووٹ دے نہ یہاں کوئی ایس اچ او کا زور ہے نہ کسی گلو بٹ کا نہ کوئی پٹواری ہے نہ کوئی رسہ گیر کے ہم نے ان کا کہنا ماننا ہے جمہوریت زندہ باد ڈیموکریسی کی بنیاد ڈیموکریٹ ہے ۔
قارئین وطن! گلو بٹ کا ذکر ہوا تو سن لیں گلو بٹوں کا پروردہ میاں نواز شریف سابق وزیر اعظم امریکہ تشریف لایا ہوا ہے مین مقصد تو بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے درینہ دوست اور امریکہ میں فرنٹ مین شیخ سعید قصوری کی بیگم کے انتقال پر ملال پر پرسہ کے لئے آیا ہوا ہے لیکن شیخ سیعد نے اپنے کچھ سینیٹر دوستوں سے بھی ملوایا ہے کہ اس کے بھائی شہباز اور بیٹی مریم صفدر کے سر پر ہاتھ رکھیں مجھے نواز شریف تین مرتبہ کے سہولت کاری وزیراعظم کا نہ کو ئی استقبال نہ کوئی امریکن سرکاری پروٹوکول نہ سیاسی کارکنوں کا ہجوم بس / گلوں بٹوں کو کارکنوں کا نام دے کر ایک دو نو دولتیوں نے پلازہ ہوٹل میں ایک آدمیوں کا کانفرنس روم بک کروایا اور جلسہ کا نام دے دیا – نواز شریف موصوف کی ذہنی خصلت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ پی آء اے پر اپنی اور بیٹی کی گندی نظریں جمائیں بھیٹیں ہیں اپنے گلوں بٹوں کو بتا رہے تھے کہ مریم صفدر پی آء اے خریدنا چاہتی ہے بدبختوں پہلے پاکستان کے قومی اداروں کو مسمار کرتے ہو ان کو بد حالی کے ایسے موڑ پر لاتے ہو کہ کوئی ان کی طرف دیکھتا نہیں پھر اپنے کسی شیخ سیعد سے قیمت لگوا کر اپنے اثاثوں میں شامل کرتے ہو ہاے ہاے نواز قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو ! نواز اب اپنے سہولت کاروں کی سہولت کاری سے باہر نکل کر آخری عمر میں کچھ اپنے بل بوتے پر قوم کی خدمت کا عہد کرو اور حسین حقانی کی بات کو سچا کر دکھا کہ یو آر پاکستانی میڈ ناٹ آرمی میڈ !
٭٭٭