معلوم نہیں کب پاکستان کی سیاسی جماعتیں واقعی ماضی سے سبق سیکھیں گی، جس کے سبب بیمار ہوتے ہیں اسی عطار کے لونڈے سے دوبارہ دوا لینے پہنچ جاتے ہیں۔ پاکستان میں جاری حالیہ سیاسی دنگل میں دیکھا جائے تو ریفری ایک بار پھر انگلی اٹھانے کے تیار نظر آرہا ہے، مگر اس انگلی کی منتظر سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، اسلامی جمعیت اسلام(ف) و دیگر جس بے تابی سے یہ آئوٹ ہوتی حکومت دیکھنا چاہتے ہیں وہ درست نہیں ہوگا۔ اگرچہ اپوزیشن جماعتوں کی حکمت عملی بظاہر یہی نظر آتی ہے کہ لوہے کو لوہے سے ہی کاٹا جائے، یعنی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین اس تعلق کو انہی دونوں کے ہاتھوں ختم کروایا جائے اور بعد میں سیاسی میدان میں کھل کر کھیلا جائے۔
یہ چال کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو کم از کم جمہوریت کے ماتھے پر لگے دھبوں میں یہ ایک مزید دھبے کا اضافہ ہی ہوگا اس کو جمہوریت کی کامیابی کا الاپ الاپتے ہوئے اپوزیشن کو کم از کم سر شرم سے ضرور جھکانا چاہئے۔ جو کام جمہوری طریقے سے ہوکر ہی رہنا ہے اور اس کے ابتدائی نتائج بھی حالیہ مقامی انتخابات اور ضمنی انتخابات کی صورت میں مل رہے ہیں تو پھر دو سال مزید انتظار کرلینے میں کوئی حرج تو نہیں ہونا چاہئے۔ اپوزیشن کی حکومت وقت سے پہلے گرانے کی حکمت عملی میں ایک اور وجہ اس حکومت کی ناقابل اعتبار حرکات بھی سبب معلوم ہوتا ہے۔ مہنگائی پر حکومت وزرا کے بیانات، اپوزیشن پر مقدمات کی تدبیریں یا انتخابات سے قبل اپوزیشن کے رہنمائوں کو پابند سلاسل کرنے کی چالیں پھر محسوس ہوتا ہے کہ اس جمہوری لبادہ اوڑھے غیرجمہوری حکمت عملی کا سبب ہوسکتا ہے۔غرض ان سب کی چال بازیوں میں ہوگا کیا؟ وہی عوام کا بیڑا غرق۔ پریشان حال عوام کو تو فوری طور پر جس ریلیف کی ضرورت ہے وہ اس سیاسی محاذ آرائی کے سبب دب کررہا جائے گا اور سالوں سے عوام کے ذہنوں میں اُبھرتا سوال پھر جواب طلب ہی رہے گا کہ ”ہمارا کیا ہوگا”
٭٭٭