حکائیتیں، اقتسابات اور اقوال!!!

0
97
کامل احمر

پچھلے سال فیس بک پر حکائیتوں، حدیثوں کہاوتوں کے علاوہ پیارومحبت کی شعروشاعری کی بھرمار رہی ان میں چھوٹے بڑے سب شامل تھے وہ بھی جو لوٹ مار کرکے آرام کی زندگی گزار رہے ہیں۔اگر ان سب چیزوں کا جائزہ لیں تو آپ بہت سی چیزوں کو رد کرینگے اور بہت سی باتوں پر ہاں بھی کرینگے بہت سی باتیں آپ کے تجربے میں رہی ہونگی۔پرانے وقتوں میں لوگ اپنے تجربے سے کہاوتیں بناتے تھے۔وقت کے ساتھ وہ باتیں پرانی تو نہیں ہوئی لیکن ان کا اندازہ بدلا ہے اچھی باتیں کم اور بری باتوں کارواج زیادہ ہوا ہے۔آئیں جائزہ لیں کچھ ایسی ہی باتوں کا جو ہم نے وہاٹس اپ اور فیس بک سے بی ہیں۔ان سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ نہیں۔
ایک تحریر پڑھی جیسے آپ کہاوت یا حکایت کہہ سکتے ہیں!
”ہمیشہ جوڑنے کی کوشش کیجئے توڑنے کی نہیں، دنیا میں سوئی بن کر رہیئے۔قینچی بن کر نہیں کیونکہ سوئی دو کو ایک کردیتی ہے۔اور قینچی ایک کو دو کر دیتی ہے لکھنے والے نے مزید لکھا ہے اپنی طرف سے ”خوش رہیں خوشیاں بانٹیں” جب کہ اس کے ضد میں ایک اور کہاوت پڑھی”برے لوگوں کو سنوارنے کا طریقہ یہ ہے کہ قینچی بن جائو ان کے لئے اور ان کی بری باتوں کو تراشو، ایک اور کہتاہے”موجودہ حالات میں کبھی کسی سے بحث نہ کریں اگر کوئی کہتا ہے ہاتھی اُڑتا ہے تو اس کو بتائیں آج صبح ہمارے گھر کی تارپر بیٹھا تھا اور اس کے بعد یہ بھی طنزیہ پوسٹ جو آیان علی کو پکڑنے اور کسٹم انسپکٹر اعجاز چوہدری کو اس جرم میں قتل کے بعد ڈالی گئی تھی۔”میرے پاپا نے آیان علی کو گرفتار کرکے بہت بڑی غلطی کی تھی میں اپنے پاپا کی طرف سے سیاستدانوں، عدلیہ اور پوری پاکستانی قوم سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں۔بیٹا کسٹم انسپکٹر اعجاز چوہدری ایک اور طنزیہ جو ڈان میں چھپی خبر کے حوالے سے تھی۔”اب بہت سے پاکستانیوں کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ انہوں نے جس رسی کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا وہ دراصل سعودی شہزادوں کے ناڑے تھے۔”
اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے پر حالیہ پوسٹ دل، دہلا دینے والی ہے”پچاس سال قبل سینے چیر دینے والی خبر تھی کہ ملک ٹوٹ گیا۔پچاس سال بعد سن رہے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہوگیا افسوس جس ملک کے لئے لاکھوں لوگوں نے جانیں دی، بے گھر ہوئے وہ ملک مکروہ قسم کے ذاتی کروہی، اور ادارہ جانی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔”ہم کہتے چلیں کہ یہ کھیل جاری ہے انجام خدا جانے اور اسی سے متعلق ایک جنرل پر الفاظ کا وار ہے ملاحظہ ہو”صاحب نے کے ایل سہگل کا”جب دل ہی ٹوٹ گیا”سنتے ہوئے اسکاچ کا بڑا گھونٹ بھرا۔ریشمی گائوں کی ڈوری ڈھیلی کی اور بولے ہمیں بھی دکھ اور شرمندگی ہے ہمارے دل بھی گھائل ہیں آج ڈھاکہ، چٹاگانگہ کا کس بازار میں ڈی ایچ ہوتے کتنا مزا آتا” مذہبی شخص نے پوسٹ لگا کر جگانے کی کوشش کی ہے”امتحان میں نقل کر لو تو امتحانی بورڈ پاس کردیتا ہے۔اللہ کی قسم اپنے پیارے نبی کریم کی نقل کر لو تو اللہ تعالیٰ پاس کردیگا۔ہم اس پر کچھ نہیں کہنا چاہتے اور اب ذرا پیارومحبت کسی ساٹھ سال سے اوپر کے قلم سے یاد ماضی عذاب ہے انکے لئے ”کاش تجھے سردی میں لگے محبت کی ٹھنڈ اور تو تڑپ کے مانگے مجھے کمبل کی طرح یہ کوئی ناتجربہ شاعر ہے جسے نہیں معلوم یخ بستہ سردی میں بھی محبت گرم ہی ہوتی ہے۔اور کسی بہادر نے امریکہ کی تاریخ رکھی ہے۔اعداوشمار دے کر۔”پچھلے78سال میں امریکہ نے108جنگیں چھیڑ کر3کروڑ انسان قتل کئے۔دنیا کے23فیصدی وسائل اجاڑے نیز3کھرب ڈالر کا اسلحہ بیچا۔اس لحاظ سے امریکہ واحد دہشتگرد ملک اور اقوام متحدہ ناکام ترین ادارہ ہے۔اس میں دوسری بات سچ ہے۔اور پہلی بات میں ابہام ہے کہ ہر کوئی امریکہ آکر بسنا چاہتا ہے اور فائدہ بھی اٹھاتا ہے۔ایک اور طنز کی ہے کسی نے اس پوسٹ میں جو پاکستان سے تعلق رکھتی ہے۔”ملک کی95فیصدی آبادی اہل بیت اور ختم نبوت کے نام پر جان قربان کرنے کو تیار ہے۔البتہ کوئی بھائی مجھے بازار سے اصلی شہد، خالص سرخ مرچ، خالص دودھ، ملاوٹ سے پاک آٹا ڈھونڈ کر دکھا دے”اور اب مسکرایئے یہ پڑھ کر ”ہم والدین سے ڈرنے والی آخری اور اولاد سے ڈرنے والی پہلی نسل ہیں۔”یقین نہ آئے تو ڈرامہ سیریل ”فاسق” دیکھ کر ماتم کیجئے اگر آپ بے غیرت نہیں اور اس نسل سے ہیں۔جن کی تربیت والدین اور اسکول کے اساتذہ نے کی ہے۔اور رشتوں کے تعلق سے کیا خوب پوسٹ ہے یہ”رشتے قدرتی موت نہیں مرتے ان کو ہمیشہ انسان ہی قتل کرتا ہے۔کبھی نفرت سے، کبھی نظر اندازی سے اور کبھی غلط فہمی سے”ہمارے ایک عزیز دوست کی دانشمندانہ بات سے ہم انحراف نہیں کرسکتے”کچھ لوگ ہمارے کبھی نہیں ہوتے، بس وقت کچھ پل کے لئے ان کو ہمارے پاس لے آتا ہے”اور ایسا بھی دیکھا گیا ہے جو آپ سب کے تجربے میں ہوگا۔”جہاں تعریف کرنی ہو وہاں سب چپ ہوجاتے ہیں اور برائی کرنے کے لئے گونگے بھی بول پڑتے ہیں۔”
آپ کو آج کے مولویوں اور ڈاکٹروں سے واسطہ پڑا ہوگا کیا یہ غلط ہے”آج کا مولوی مسجد کی انتظامیہ کی ہدایت پر زیادہ سے زیادہ چندہ دینے پر زور دیتا ہے اور بچوں کی مسجد میں غلط حرکات پر غور نہیں کرتا ایسے ہی ڈاکٹر مریض پر بہت سے ٹیسٹ کروا کر ہسپتال کا ریونیو بڑھاتا ہے۔اور خود کی جیب بھی بھاری رکھتا ہے”۔
یہ بھی آج کا المیہ ہے ”زندگی ہی گزر گئی سب کو خوش کرنے میں، جو خوش ہوئے وہ اپنے نہ تھے جو اپنے تھے وہ کبھی خوش نہ ہوئے”اور سندھ کے سچل سرسٹ ولی نے کہا تھا”محبوب ہر شکل میں ظاہر ہوتا ہے کبھی مُلاں تو کبھی مفتی!! اور سائوتھ امریکہ کے چی گوارا نے کہا تھا اپنی جدوجہد جاری کرتے ہوئے سامراجی طاقت کے خلاف ”ہم اپنے اچھے مستقبل کو یقینی نہیں بنا سکتے۔جب تک اس کے لئے جدوجہد نہ کریں اور مر جائیں”اور تبلیغ سے یہ بھی پڑھ لیں”تھوڑی دیر کے لئے قبرستان جا اور بولنے والوں کی خاموشی دیکھ”ایک اور معنی خیز ہے”اپنی آواز کی بجائے اپنے دلائل بلند کرو۔پھول بادلوں کے گرجنے سے نہیں برسنے سے اُگتے ہیں اور یہ حکایت کی ولی کی ہے
”پہاڑاں تے چڑھدے سیلاب ویکھے
وچ کنڈیادے دلدے گلاب ویکھے
دولت تے ایڈا مان نہ کر بندیا
سڑکاں تے رلدے نواب ویکھے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here