بھارت، امریکہ دوریاں اور پاکستانی مفادات!!!

0
61

بھارت، امریکہ دوریاں اور پاکستانی مفادات!!!

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات میں نمایاں بہتری اور واشنگٹن کے نئی دہلی کے ساتھ تعلقات میں جو تناؤ دیکھنے میں آرہا ہے، اس پر پاکستانی کافی خوش نظر آرہے ہیںلیکن کیا یہ خوشی کا احساس واقعی جائز ہے اور کیا یہ برقرار رہ سکے گا؟پاکـامریکا تعلقات میں حالیہ تبدیلی نئی صف بندی اور سمت کی تبدیلی ہوسکتی ہے تاہم اگر اس ‘صف بندی’ کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان چین سے دور ہو رہا ہے تو میرے خیال میں یہ کہنا غلط ہو گا ،ایسا اس لیے ہے کیونکہ بیجنگ ایک ایسے قابل اعتماد شراکت دار اور دوست کا کردار ادا کررہا ہے جس پر اسلام آباد اپنی اقتصادی ضروریات اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ انحصار کرتا ہے، پاکستان چین کے” بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو” کا بھی اٹوٹ حصہ ہے۔سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بھارت میں انتہا پسند، جارح ہندو قوم پرست حکومت اندرون ملک اپنے فرقہ وارانہ مفادات کے لیے مسلسل پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دے رہی ہے، جس کے تناظر میں پاکستان کو اپنے موجودہ جوہری ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ بھارت کی جانب سے لاحق ممکنہ خطرات سے خود کو بچانے کے لیے مزید ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے پاس کسی ایک فریق کا ساتھ دیے بغیر فوائد حاصل کرنے کے امکانات موجود ہیں۔ عوام کو سیاسی آزادی نہ دینے یا انسانی حقوق کا احترام نہ کرنے پر مغربی جمہوریتیں اکثر چین پر تنقید کرتی رہی ہیں لیکن شاذ و نادر ہی وہ تعریف کرتے ہیں کہ کس طرح چین نے صرف 40 سالوں میں 80 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔اس وقت خاص طور پر جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے اس حوالے سے بہت سی مغربی جمہوریتیں ایسے اقدامات کی خاموش حمایت کر رہی ہیں جو نسل کش ہے اور یہاں تک کہ وہ اپنے ملک میں ان لوگوں کو خاموش کررہے ہیں جو اس کے خلاف ا?واز اٹھاتے ہیں۔ ایسے میں وہ جب آزادی کی بات کرتے ہیں تو وہ اپنا اعتبار کھو دیتے ہیں۔ فلسطینیوں کو بنیادی آزادی سے محروم کیا جا رہا ہے جوکہ ان کا جینے کا حق ہے۔اب تک دو عوامل پاکستان کے حق میں گئے ہیں۔ سب سے پہلے پاکستان نے ڈونلڈ ٹرمپ کی خود پرست شخصیت کو بالکل صحیح اہمیت دی۔ اس نے انہیں نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کا فیصلہ کیا اور کابل ایئر پورٹ ‘ایبی گیٹ’ بم دھماکے کے ایک ملزم کو فوری طور پر پکڑ کر امریکا کے حوالے کر کے ٹرمپ کے ‘سخت رہنما’ کی شبیہ کو مزید تقویت دی۔ یہ حملہ اگست 2021ء میں امریکی انخلا کے دوران ہوا تھا جس میں 13 امریکی فوجی اور تقریباً 200 افغان شہری ہلاک ہوئے تھے۔پھر مئی میں بھارت کے زیرِ تسلط کشمیر میں حملے کے بعد بھارت نے پاکستان میں اہداف کو نشانہ بنایا تو امریکا نے دونوں فریقین سے کشیدگی کم کرنے کا کہا۔ امریکی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے جلد ہی مثبت جواب دیا جس سے خود پسند رہنما کو ‘فتح’ ملی۔ ٹرمپ بار بار امن ساز کے اپنے کردار کا ذکر کرتے نہیں تھک رہے،اس سے ان کی انا کو بے انتہا تسکین ملی۔اس کے بعد مئی میں پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت میں ایک اور مسئلہ سامنے آیا۔ امریکی رہنما فون پر دونوں ممالک کو حالات کی مزید خرابی سے پہلے حالات کو پْرسکون کرنے کا کہہ رہے تھے اور دونوں ممالک نے وائٹ ہاؤس سے کہا بھی کہ وہ کشیدگی کم کریں گے لیکن فضائی تصادم میں شرمناک انداز میں اپنے کئی طیارے کھونے کے بعد، جس کی وجہ سے بھارت کو دو روز تک اپنی فضائیہ کو گراؤنڈ کرنا پڑا، اس نے جوابی کارروائی کی صورت میں پاکستان پر میزائل داغے۔10 مئی کو چند ہی گھنٹوں میں پاکستان نے بھی بھرپور جواب دیا۔ اعلیٰ پاکستانی اہلکار نے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو کو بتایا کہ بھارت کی جانب سے دوہرے استعمال کے میزائل داغے گئے جوکہ جوہری وار ہیڈ بھی رکھتے تھے، ایسے میں پاکستان نے صرف امریکا کی درخواست پر تحمل کا مظاہرہ کیا۔مبینہ طور پر اس سے بھی امریکا اور بھارت کے تعلقات خراب ہوئے کیونکہ جیسے بھارت نے کشیدگی کم کرنے کا کہہ کر حملہ کیا، اس سے شاید ٹرمپ کو اپنی بے عزتی محسوس ہوئی ہوگی۔ اگرچہ بھارت بعدازاں امریکا کے کہنے پر راضی ہوا اور ٹرمپ جنگ بندی کا اعلان کرنے میں کامیاب ہوگئے لیکن تلخیاں پہلے ہی جنم لے چکی تھیں۔ہوسکتا ہے کہ ان واقعات نے امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات کو مزید خراب کیا ہو لیکن یہ سوچنا حماقت ہوگی کہ عالمی طاقتوں کے درمیان تمام تعلقات کا انحصار صرف اس طرح کے چھوٹے مسائل پر ہے پھر چاہے کچھ رہنماؤں کی انا کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔امریکا اور بھارت کے تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت کی برکس کی رکنیت ہے جس گروپ میں روس، چین، برازیل، جنوبی افریقہ اور کچھ چھوٹے ممالک شامل ہیں جوکہ ایک تجارتی بلاک بناتے ہیں۔ یہ گروپ ایک نئی کرنسی کا خیال آگے بڑھانا چاہتا ہے اور ایسی تجارت چاہتا ہے جو امریکی ڈالر پر منحصر نہ ہو۔ امریکا چین سے مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کا ساتھ دے رہا ہے جبکہ نئی دہلی کواڈ گروپ کا بھی حصہ ہے جس میں امریکا، آسٹریلیا اور جاپان شامل ہیں یہی وجہ ہے کہ بھارت کی برکس کی رکنیت، ایشیا میں مغرب کے اسٹریٹجک حکمت عملی سے مطابقت نہیں رکھتی لہٰذا جب ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر بھارت کا مذاق اڑایا، اس کی معیشت کے بارے میں پیش گوئیاں کیں اور ٹیرف میں اضافہ کیا تو غالباً یہ بھارت پر دباؤ بڑھانے کا طریقہ تھا۔ اگر یہ کام کرتا ہے تو شاید پاکستان کی خوشی زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکے لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو ہمیں ایک بہت ہی دلچسپ صورت حال دیکھنے کو ملے گی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here