کساد بازاری!!!

0
41
ماجد جرال
ماجد جرال

دنیا بھر میں جاری معاشی کساد بازاری نے عام انسان کی زندگی کو ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں ضروریاتِ زندگی کی افورڈبلٹی ایک خواب بنتی جا رہی ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق کساد بازاری ایک ایسا دورانیہ ہوتا ہے جب معیشت سکڑتی ہے، روزگار کے مواقع کم ہو جاتے ہیں، صنعتیں اپنی پیداوار گھٹا دیتی ہیں، اور مارکیٹ میں سرمایہ کاری کم ہو جاتی ہے۔ اس صورتِ حال کا سب سے بڑا بوجھ غریب اور متوسط طبقہ برداشت کرتا ہے، کیونکہ یہ طبقہ ہی روزمرہ کے اخراجات اور بنیادی ضروریات پوری کرنے میں سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہوتا ہے۔حالیہ مہینوں میں عالمی سطح پر بڑھتی مہنگائی نے عوام کی قوتِ خرید کو شدید متاثر کیا ہے۔ کھانے پینے کی اشیا سے لے کر کرایہ، ایندھن، بجلی، گیس اور صحت کی سہولیات تک ہر چیز کی قیمت میں ہوشربا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پہلے جو اشیا ایک عام گھرانے کی پہنچ میں تھیں، اب وہ ایک لگژری کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، دودھ، دالیں، گوشت، سبزیاں اور پھل جیسی بنیادی خوراک اب غریب طبقے کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔کساد بازاری کا سب سے تباہ کن اثر روزگار پر پڑتا ہے۔ کاروبار کمزور ہوتے ہیں، فیکٹریاں بند ہوتی ہیں، اور کمپنیاں اپنے ملازمین کی تعداد کم کر دیتی ہیں۔ بے روزگاری بڑھنے سے لوگوں کی آمدنی گھٹتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ اپنے گھر کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ایک عام مزدور یا کم تنخواہ پر کام کرنے والے شخص کے لیے مہینے کا بجٹ بنانا تقریبا ناممکن ہو چکا ہے۔صحت اور تعلیم جیسے بنیادی شعبے بھی کساد بازاری کے شکنجے سے محفوظ نہیں رہتے۔ ہسپتالوں کے اخراجات بڑھنے سے غریب مریض علاج کرانے سے قاصر رہتے ہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی فیسیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ والدین اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلوانے سے محروم ہو رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں غربت اور ناخواندگی کا دائرہ مزید وسیع ہوتا جا رہا ہے، جو مستقبل میں معاشی ترقی کی راہ میں مزید رکاوٹ بن سکتا ہے۔کساد بازاری کا ایک اور اثر سماجی مسائل میں اضافہ ہے۔ جب لوگ معاشی دبا کا شکار ہوتے ہیں تو گھریلو جھگڑے، ذہنی دبا، ڈپریشن اور جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ بہت سے لوگ معاشی دباو برداشت نہ کر پانے کی وجہ سے خودکشی جیسے انتہائی قدم بھی اٹھا لیتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بحران سے نکلنے کے لیے حکومتوں کو فوری اور موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ سب سے پہلے مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اشیائے خوردونوش پر سبسڈی دی جائے۔ عوامی ٹرانسپورٹ کو سستا اور بہتر بنایا جائے تاکہ ایندھن کے بڑھتے اخراجات سے بچا جا سکے۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت اور تعلیم کے شعبے میں حکومتی سہولیات بڑھائی جائیں تاکہ عام آدمی کو کم سے کم مالی بوجھ کا سامنا کرنا پڑے۔کساد بازاری ایک معاشی چیلنج ضرور ہے، مگر اس کا سب سے بڑا امتحان انسانی زندگی کی بقا اور معیارِ زندگی کو برقرار رکھنا ہے۔ جب تک معیشت کو دوبارہ مستحکم نہیں کیا جاتا اور عوام کو ریلیف فراہم نہیں ہوتا، زندگی کی بنیادی ضروریات عام آدمی کے لیے ایک مشکل خواب ہی بنی رہیں گی۔ یہ وقت ہے کہ حکومتیں اور عالمی ادارے مل کر ایسے اقدامات کریں جو نہ صرف موجودہ بحران پر قابو پائیں بلکہ مستقبل میں بھی عام آدمی کی زندگی کو محفوظ اور بہتر بنائیں۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here