قرآن کی پکار!!!

0
63
شبیر گُل

اہل یورپ نے مسلمانوں کی دل شکنی اور دل آزاری کا باقاعدہ منصوبہ بنا رکھا ہے۔ وہ وقفے وقفے سے اسکی توہین کا پتھر پھینک کر پانی کی گہرائی کا اندازہ لگاتے ہیں ۔ کبھی وہ مسلمانوں کی محبوب ترین ہستی جناب رسولۖ اقدس کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور کبھی مسلمانوں کی مقدس ترین کتاب کی بے حرمتی کرکے وہ مسلمانوںکو باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انکے ہاں باہمی احترام کے عالمی قوانین کا کوئی پاس اور لحاظ نہیں۔اور نہ ہی مسلمانوں کے جذبات کی پروا ہے۔امریکہ اور نیٹو جب چاہتے ہیںمسلمانوں کے کسی ملک پر چڑھ دوڑتے ہیں۔مسلمانوں کی خود مختاری کو روند دیتے ہیں۔ عالمی تعلقات کا انحصار آپکی طاقت پر ہوتاہے۔اگر آپ طاقتورہیں تو آپکی آواز کو سنا جاتا ہے۔ کمزور اکانومی اور کرپٹ مائنڈ سیٹ آپکی جرآت چھین لیتی ہے اور پھر بیرونی امداد پر یقین ہو تو آپکو سب لٹا دیتے ہیں۔ آپ شکستہ دل اور کمزور گردانے جاتے ہیں۔مسلمانوں کی ریڈ لائن،اللہ رب العزت کی کتاب، قرآن حکیم اور نبی آخرالزماں ،جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ہر چند سال بعد مسلمانوں کی ریڈ لائن کو کراس کیا جاتا ہے جس کا ردعمل آنا فطری عمل ہے۔ہم چونکہ انکے ذہنی اور مالی غلام ہیں۔ ہمارے ملکوں کی بڑی مسندوں پر انہی کے پالتو بیٹھے ہیں ۔اقتدار کی ہر منزل پر انہی اغیار کے ایجنٹ قابض ہیں۔ جو بظاہر مومن ، حقیقت میں منافق ہیں ۔ یہ شاہ سے زیادہ اسکی وفاداری نبھا رہے ہیں۔ انکا اڑنا بچھونا مال و دولت ۔ ان کے نام کے مسلمانوں جیسے ہیں۔ قرآن سے ، اسلام سے ، رسول اللہ سے انکا ایک رسمی تعلق ہے۔ جس کی وجہ سے ستاون ممالک ملکر بھی قرآن کا اور رسول اللہ کی حرمت کا دفاع نہیں کرسکتے۔ عام مسلمان اپنے آپکو بے بس تصور کرتا ہے۔ وہ اپنا احتجاج اور غصہ ، اپنے ہی ملک میں توڑ پھوڑ سے نکالتا ہے ۔کیونکہ اغیار کے یہ کتے ہمی پر بھونکتے ہیں ۔ ان بزدل اور نامرد حکمرانوں کی وجہ سے مسلمان مملکتیں کمزور ہیں ۔سید مودودی رح فرماتے ہیں کہ شریعت نا مردوں اور بزدلوں کے لئے نہیں اتری۔ نفس کے بندوں اور دنیا کیغلاموں کے لئے نہیں اتری ہے۔ ہوا کے رخ پر اڑنے والے خس و خو اک اور پانی کے بہا پر بہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے رنگوں کے لئے نہیں اتری ۔ یہ ان بہادروں اور شیروں کے لئے اتری ہے جو ہوائوں کا رخ بدلنے کا عزم رکھتے ہوں ۔ جو دریاں کی روانی سے لڑنے اور اسکے بہا کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہیں ۔جو صبغت اللہ کو دنیا کے ہر رنگ میں محبوب رکھتے ہیں۔اور اسی رنگ میں دنیا کو رنگ دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔مسلمان جس کا نام ہے وہ دریا کے بہا پر بہنے کے لئے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے ۔ اسکی آفرینش کا مقصد ہی یہی ہے کہ زندگی کے دریا کو اس راستے پر رواں کردے جو اسکے ایمان و اعتقاد ، راہ راست اور صراط مستقیم ہے۔ *سید مودودی رح فرماتے ہیں کہ ہم زندگی کے کسی ایک جز یا بعض اجزا میں کچھ اسلامی رنگ پیدا کر دینے کے قائل نہیں بلکہ اس بات کے درپے ہیں کہ پورا اسلام پوری زندگی کا حکمران ہو …. انفرادی سیرتوں اور گھر کی* *معاشرت پر حکمران ہو* ۔ *تعلیم کے اداروں پر حکمران ہو، قانون کی عدالتوں پر* *حکمران ہو،* *سیاست کے ایوانوں پر حکمران ہو، نظم ونسق کے محکموں پر حکمران ہو اور* *معاشی دولت کی پیداوار اورتقسیم پر* *حکمران ہو۔اسلام کے اس ہمہ گیر تسلط ہی سے ممکن* *ہوسکتا ہے کہ* *پاکستان یک سو ہوکر ان روحانی ، اخلاقی اور مادی* *فوائد سے پوری طرح متمتع ہو جو رب العالمین* *کی دی ہوئی* *ہدایت پر چلنے کا لازمی اور فطری نتیجہ ہیں۔* اللہ اور رسول اللہ کی عزت وتکریم کے دشمن جس طرح غیر ہیں جو غیر اللہ کو پکارتے ہئں ایسے ہی ہماریکچھ جاہل علما شرک و بدعت اور فضولیات کو سپورٹ کرتے ہیں۔ جو قرآن کریم کی صریحا خلاف ورزی اور توہین ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کی کتاب قرآن کریم اور رسول اللہ کی تعلیمات کے خلاف ایسی چیزوں کو سپورٹ کیا جائے ۔ کسے مٹانے کے لئے رسول اللہ تشریف لائے۔ قرآن نے انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر رسول خدا کی غلامی کا درس دیا تھا۔ لیکن ہمیں شیخ عبدالقادر جیلانی رح ،بازی بسطامی رح ، علی ہجویری رح ،اور بزرگان دین سے منسوب من گھڑت اور جھوٹی کرامات بیان کرتے ہیں۔ مردوں کو زندہ کرنا ، مرادیں پوری کرنا، بگڑی بنانا،اولاد دینا جیسے بیہودہ نظریات نے ہمیں قرآن وسنت کا باغی بنا دیا ہے۔چند جاہل مطلق دین کے جعلی ٹھیکیداروں کو اللہ کو خوف نہئں کہ وہ کونسی تعلیمات کو فروغ دے رہے ہیں۔ جسے مٹانے کے لئے اللہ نے رسولوں کو بھیجا۔
قرآن فرماتا ہے کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں۔ تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ تو پھر ان مزاروں اور بزرگوں کو رسول اللہ سے بڑا درجہ دے کر گستاخی رسول کے مرتکب ہورہے ہیں۔
یہ سب بزرگ اللہ کے پیارے نبء رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے اصحاب کے جوتوں کی گرد بھی نہیں ہیں۔
لہذا ۔ قرآن کو تقاضا ہے کہ صرف اللہ کی عبادت، اسی سے مدد اور اسی کو پکارا جائے۔ رسول خدا کی اطاعت کی جائے ۔ اللہ رب العزت نے بارہا قرآن فرمایا ہے کہ یاایھاالذین آمنو اطیعواللہ واطیعوالرسول ۔ ہم آخری امت ہیں ۔قرآن اللہ کی آخری کتاب، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ۔یورپ مساجد کی بڑھتی تعداد پر لرزاں ہے ۔یورپ اور امریکہ میں مسلمان دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ زیادہ تر مساجد میں جمعہ کے دو اور تین اجتماعات ہوتے ہیں۔ جو اس بات کی غماز ہے کہ قرآن و فرقان کی برکت سے کل ھم تھوڑے تھے آج تعداد میں زیادہ ہیں ۔ لیکن قرآن سے لاتعلقی کی وجہ سے دن بدن کمزور ہورہے ہیں۔
قارئین !۔ قرآن ایک زندہ معجزہ ہے ہے جو قیامت تک مسلسل معجزہ ہے۔قرآن کتاب حیات ہے۔کتاب انقلاب ہے۔ہدایت کے سرچشمہ اسی سے پھوٹتے ہیں ۔یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ کردار زندگی، افکار زندگی تبدیل کرتا ہے۔ جس سے زندگی گزارنے اور ، کردار زندگی کے لئے بیشمار اسلوب نظر آتے ہیں ۔جس سے سوچ میں تبدیل نظر آتی ہے۔ جس کے بدلنے سے سے انفرادی اور اجتماعی سطح پر نکھار آتا ہے۔ہمارے ایمان کی تازگی کا ذریعہ قرآن ہے۔
لیکن آج علما نے ہمیں قرآن سے دور کردیا ہے ۔ بزرگوں کے واقعات ۔ جھوٹی اور بے سروپا کہانیاں گھڑ گھڑ کے امت کو گمراہ کر دیا گیا ہے۔ مسلکی گروہوں میں تقسیم کردیا گیا ھے۔فرقہ پرست مولویوں کیطرف سے ڈرایا جاتا ہے کہ قرآن کو ترجمہ کے ساتھ نہیں پڑھنا، علما کے بغیر نہیں پڑھنا ورنہ گمراہ ہو جا ئوگے۔ایسے دیوس اور گمراہ علما شرک و بدعت کی تعلیمات پھیلاتے ہیں۔ جسکی وجہ سے اُمت تفرقوں میں بٹ چکی ہے۔ قرآن کو آج طاقوں میں سجا دیا گیا ہے۔ اسکی تعظیم کی جاتی ہے۔ آنکھوں سے لگایا جاتا ہے۔تعویز بنا کر گلے میں ڈالے جاتے ہیں۔ قسمیں کھائی جاتی ہیں۔لیکن اس پر عمل سے ہم بہت دور ہیں۔ جسکی وجہ سے ہمیں دنیا میں ہر جگہ ہزیمت اٹھانا پڑتی ہے۔رسوائی سمیٹنا پڑتی ہے ۔ کیونکہ ہم نے قرآن سے رہنمائی لینا چھوڑ دیا ہے۔
عبادت خدا کی اطاعت مصطفے کی ، خدمت مخلوق خدا کی ۔ انسانی زندگی کا یہی حوصلہ ہے اور زندگی کا محور یہی تین چیزیں ہیں۔ جسے قرآن میں بار بار زندگیوں پر امپلیمنٹ کرنے کا کہا گیا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا اخلاقی اور ایمانی فرض ہے کہ ہم قرآن کریم اور سنت رسول اللہ پر عمل کریں۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرو لیکن ہم معمولی باتوں کے لیے جھگڑتے ہیں۔ہم ہی وہ لوگ ہیں جب کوئی بہن بھائی یا رشتہ دار بیمارہو تو اسکی دوائی اور مدد سے نظریں چراتے ہیں ۔ جب یہ شخص مر جاتا ہے تو اصرار کرتے ہیں کہ روٹی ہماری طرف سے ہوگی۔جب اسے دوائی کی ضرورت تھی،ہماری انا آڑے آئی ، ہم اللہ کی کتاب کو بھلا بیٹھے ۔ ہمسایوں کے حقوق کی بات کی گئی ہے۔ ہمارا ساری زندگی ہمسایوں سے جھگڑا رہتا ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں حکم دیا ہے کہ امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کریں۔ لیکن ہم چوروں،جھوٹوں اور فراڈیوں کا انتخاب کرتے ہیںجو ہمارے بچوں کا مستقبل برباد کرتے ہیں۔ خلاف قرآن قانون بناتے ہیں۔ ظلم کا نظام قائم کرتے ہیں۔
ہم شخصیت پرستی، توہمات اور جاہلانہ رسم و رواج میں بندھے ہیں۔فضول رسم و رواج پربے جا خرچ کرتے ھیں۔ مگر رشتہ داروں اور ضرورتمندوں کی مدد کو بوجھ سمجھتے ہیں۔
ہمارے علما کرام شرک و بدعت کو پروموٹ کرتے ہیں۔ایکدوسرے کی غیبت کرتے ہیں۔ایسے بے نسلی دوستوں سے احتیاط کریں ۔ جو چھوٹے چھوٹے مفاد کے لئے دوستوں کی برائیاں کرتے ہیں ۔
مرحوم و مغفور ابا جی فرمایا کرتے تھے۔ دوست کے معنی دو ۔ ست ہے ۔ یعنی چودہ نسلی انسانوں سے ایک دوست بنتا ہے۔ جو دوسرے دوست کے ساتھ وفا شعاری کرتا ہے۔لیکن ہماری عادت ہے کہ ایکدوسرے کی برائی کے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرو لیکن ہم معلوم کے لیے جھگڑتے ہیں۔ ماشااللہ ہم ہی وہ لوگ ہیں جب کوئی بہن بھائی یا رشتہ دار بیمار ھو تو اسکی دوائی اور مدد سے نظریں چراتے ہیں ۔ جب یہ شخص مر جاتاہے تو اصرار کرتے ھیں کہ روٹی ھماری طرف سے ھوگی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، پس اس پر ظلم نہ کرے اور نہ ظلم ہونے دے۔ جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے، اللہ تعالی اس کی ضرورت پوری کرے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت کو دور کرے، اللہ تعالی اس کی قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک بڑی مصیبت کو دور فرمائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے اللہ تعالی قیامت میں اس کے عیب چھپائے گا۔ ھمسایوں کے حقوق کی بات کی گئی ھے۔ ھمارا ساری زندگی ہمسایوں سے جھگڑا رہتا ھے۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں حکم دیا ھے کہ امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کریں۔ لیکن ھم چوروں،جھوٹوں اور فراڈیوں کا انتحاب کرتے ھیں۔جو ہمارے بچوں کا مستقبل برباد کرتے ھیں۔ خلاف قرآن قانون بناتے ھیں۔ ظلم کا نظام قائم کرتے ھیں۔
آج مسلمان پوری دنیا میں قرآن کی بیحرمتی پر سراپا احتجاج ہیں ۔ قرآن ہماری ریڈ لائن ہے۔!
امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے سویڈن میں قرآن کی بیحرمتی کے خلاف احتجاج کی کال دی اور کل ملک بھر میں جتنے بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا، ماضی قریب میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ہر شہر میں ہر قصبے میں ہر گلی محلے میں کئی کئی مقامات پر لوگ نکلے۔
یہ جہاں لوگوں کی اسلام سے وابستگی، قرآن سے محبت کا اظہار تھا، وہیں اس بات کی علامت بھی کہ ملک کے طول و عرض میں چاروں صوبوں میں تمام شہروں میں جماعت اسلامی کے وابستگان موجود ہیں، اس کی تنظیم موجود ہے۔ ایسے عالم میں جب بڑی پارٹیاں ایک صوبے یا اس کے کسی حصے تک محدود ہیں، واحد جماعت اسلامی ہے جو ملک کے کونے کونے میں ایک وفاقی اور ملک گیر پارٹی کی صورت میں الحمدللہ موجود ہے۔
اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج اور تحرک کو دیکھ کر خیال آیا کہ اگر یہ ملک گیر تنظیم یکسوئی کے ساتھ میدان سیاست میں بھی بروئے کار آئے، ذمہ داران اور کارکنان اسی جذبے کے ساتھ میدان میں نکلیں اور لوگوں کو ہمنوا بنانے کی جدوجہد کریں تو اگلے الیکشن میں، جو انتہائی قریب ہیں، یہ معرکہ بھی سر کیا جا سکتا ہے .
اہل ایمان کی پوری زندگی کا خلاصہ ،اللہ کریم نے سورہ عصر میں بیان فرمایا ہے جس کو اپنا کر صراط مستقیم پر چل سکتے ہیں جو راہ ہدایت بھی ہے اور راہ نجات بھی۔یہی قرآن کی پکار ہے ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here