اسٹیٹ کرافٹ کے تقاضے!!!

0
11
سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن! پاکستان زندہ باد24 کروڑ پاکستانیوں نے مارچ کو ایک اور قیامت کا منظر دیکھا جب آصف علی زرداری کو مملکت کا دوسری مرتبہ صدرِ مملکت کے عہدے پر براجمان دیکھا ،ہائے ہائے قیامت کا منظر قیامت سے پہلے۔ اسی طرح کا ایک قوم نے اس دن دیکھا جب شہباز شریف کو وزیر اعظم کا منصب سنبھالتے دیکھا ۔ اسٹیٹ کرافٹ شپ کے تقاضے بھی خوب ہیں اور اس کی باگیں بھی جن کے ہاتھ میں ہیں وہ بھی خوب ہیں کہ جعلی ووٹوں سے منتخب کروانے والوں کو حکومتی تاج پہنا کر مسلط کر دیتے ہیں اور جیتے ہوئوں کو کال کھوٹری میں بٹھا کر اپوزیشن کا کردار سونپ دیتے ہیں۔ اسٹیٹ کرافٹ شپ کے آئنہ میں اگر دیکھا جائے تو صدرِ مملکت اور وزیر اعظم کا ریاست پاکستان میں ایک نمائشی کردار ہے اصل میں طاقت کامنبہ وہ صاحب بہادر ہیں جس کی فٹ کی سوٹی سے لاکھ جوان دائیں اور بائیں دیکھتے ہیں، سوٹی والے صاحب کی ان صاحبان کو شو کیس میں بٹھانے کی مجبوری ہے کہ دنیائے مغرب کو جمہوری لیبل دیکھانا ہوتا ہے اور دنیائے مغرب بھی یہی چاہتی ہے کہ اصل طاقت سوٹی والی سرکار کے ہاتھ میں ہونی چاہیے تاکہ اس خطہ کو وہ اپنے قابو میں رکھے یہ ہے ساری حقیقت ان دو بڑے صدر اور وزیر اعظم کے عہدوں کی جن کے پاس اتنا بھی اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق وزیر خزانہ یا وزیر خارجہ تو بڑے عہدے ہیں تھانیدار بھی نہی لگا سکتے۔
قارئین وطن! پاکستان پر اس سے بڑا قیامت کا پہاڑ کیا ٹوٹے گا کہ مملکت جا صدر اور وزیر اعظم دونوں کرپٹ چور اور خائین ہیں لیکن سٹیٹ کرافٹ پر براجمان اسٹیبلشمنٹ کا ٹولہ جنہوں نے ان کو ہم پر مسلط کیا ہے اندھے لگتے ہیں ان کو تو پتا ہونا چاہئے کہ عوام کے دلوں کی ڈھڑکن کون ہیں عمران خان ہے جس کی خاطر انہوں نے سارے بند توڑ کر اسٹیٹ کرافٹ والوں کو بتایا کہ اب زنجیریں ٹوٹ کر رہیں گی ۔ میرا وجدان کہتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کا کھیل بہت جلد اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے کہ اسٹیٹ کرافٹ کی ضرورت ریاست کے کندھوں پر گند لادنا ہی نہیں ہوتا ہے اس کا کام عوام کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنا بھی ہوتا ہے ۔ خارجہ امور ان لوگوں کے ہاتھ میں دیا جاتا ہے جو اس کے اہل ہوتے ہیں نا کہ خوشامد پسند منشیوں کے ہاتھوں میں ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ آواز خلق کو سنے کہ اس سے پہلے کہ پاکستان کے ہر گلی محلے میں انقلاب کا شور برپا ہونا شروع ہو جائے۔ آصف زرداری اور شہباز شریف قہر الہی تو ہو سکتے ہیں بڑے دفتروں کی زینت نہیں کہ ہم ان کو پہلے آزما چکے ہیں یہ گند تھے اور گند ہی نکلیاسٹیٹ کرافٹ کی ڈیمانڈ بھی یہی ہے کہ ہنر مند لوگوں کو سامنے لا ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here