جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں!!!

0
43

اس دنیائے فانی کے کچھ باسی یہاں کے دیگر مکینوں سے اتنے مختلف اور نابغہ روزگار ہوتے ہیں کہ لگتا ہی نہیں کہ ان کا تعلق اس سر زمین سے ہے جہاں کروڑہا دوسرے لوگ بھی رہائش پذیر ہیں۔ اسی طرح کی ایک شخصیت پروفیسر خورشید احمد (مرحوم و مغفور)کی بھی تھی۔ اپریل کو ان کے انتقالِ پرملال پر بے انتہا دکھ ہوا کہ یہ دھرتی ایک مزید منتخب روزگار سے محروم ہو گئی ہے۔ سوشل میڈیا کے ہزاروں صارفین نے اپنے فوری تاثرات کے ذریعے پروفیسر صاحب کو خوب خراجِ تحسین پیش کیا۔ برِ صغیرِ پاک و ہند اور بنگلہ دیش کے علاوہ مغرب میں رہائش پذیر مسلمانوں،جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے باسیوں نے بھی ان مصنف اور مفکر شخصیت کے اس دنیا پر احسانات کا تذکرہ کرنے میں کوئی کمی نہیں کی۔ محمود رامپوری نے کیا خوب کہا ہے کہ!
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
پروفیسر خورشید احمد صاحب جیسی شخصیات کیلئے کسی باقاعدہ نظم کا حصہ بننا اور پھر ایک طویل عرصے تک اسے نباہنا، ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل کام ضرور ہوتا ہے۔ گدھے گھوڑے کو برابر سمجھنے والی نام نہاد جمہوریت میں طرح طرح کے لوگ اخلاق سے گری ہوئی سیاست کرکے، اپنے پستہ قدوں کو جائز ناجائز طریقے سے بڑھاتے رہتے ہیں۔ اس طرح کی اجتماعیت میں پرفیسر صاحب جیسے نابغہ روزگار کا مسلسل اطاعتِ امر کرتے رہنا، کوئی آسان کام نہیں رہا ہوگا۔ اس کے باوجود، ان کی پبلک لائف میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا جس پر کوئی اعتراض کیا جا سکے۔ لگتا ہے سرور بارہ بنکوی نے ان کیلئے ہی کہا تھا۔
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں! اس دنیا کے قابلِ ذکر لوگ اکثر ہمہ جہت نہیں ہوتے۔ اگر کوئی مفکر یا مصنف ہو گا تو عملی سیاست اس کیلئے بہت مشکل ہوگی۔ کوئی صاحبِ بصیرت ہوگا اور کئی اداروں کی بنیاد ڈال دے گا تو وہ اچھا منتظم نہیں بن پاتا۔ کوئی مالدار ہوگا تو اس کا معیارِ زندگی،عام لوگوں سے اسے دور رکھے گا۔ اسی طرح ایک سے زائد زبانوں پر اتنا عبور ہونا کہ ان سب میں کتابیں تصنیف کر دینا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ ہمارے پیارے اور قابل پروفیسر خورشید احمد صاحب البتہ نابغہ روزگار ہونے کے ساتھ ساتھ ہمہ جہتی مہارت کے مالک بھی تھے۔ وہ واقعی تاروں کے درمیان ایک ایسا سورج تھے کہ انہوں نے تقریبا ہر شعبہ میں عروج پایا۔ پروین شاکر کے بقول!
ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا
ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب معیشت کے ساتھ اسلامی کا لاحقہ بے معنی اور ناقابلِ یقین سمجھا جاتا تھا۔ سرمایہ داری اور کمیونزم کے نظاموں کے علاوہ کسی تیسرے نظامِ معیشت کے ذکر کو دیوانگی سمجھا جاتا تھا۔ اس دور میں جب پرفیسر خورشید احمد صاحب نے اسلامی معیشت کا تذکرہ کرنا شروع کیا تھا تو شروع شروع میں سنجیدہ حلقوں نے اسے بری طرح نظر انداز کیا۔ یہ تو بھلا ہو سید مودودی کی برپا کی ہوئی تحریک کا کہ اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات ثابت کرتے کرتے اسلامی معیشت کی حقیقت کو بھی تسلیم کر لیا گیا۔ غیر سودی بنکاری، اب ایک مسلمہ حقیقت ہے اور بہت سارے ممالک میں اس کے اصولوں کی پیروی کی جارہی ہے۔ پروفیسر صاحب نے دورِ جدید کی معیشت کی اہمیت کو اس وقت سمجھ لیا تھا جب ہمارے روایتی علما لایعنی بحثوں میں مصروف تھے۔ عبید اللہ علیم نے بھی اس شعر میں اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
کھا گیا انساں کو آشوب معاش
آ گئے ہیں شہر بازاروں کے بیچ
اپنی زندگی میں جن شخصیات سے میں بہت زیادہ متاثر ہوں، پروفیسر صاحب، یقینا ان میں سے ایک ہیں۔ وہ ایک برکت والے انسان تھے۔ بہت کم لوگ ان کی شخصیت کو سمجھ کر اس کا مکمل اور صحیح احاطہ کر سکے۔ ان کی تحریریں پڑھیں، تقریریں سنیں، چند ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ جغرافیائی دوریوں کی وجہ سے ان سے قریبی شخصی تعلق تو نہیں بن پایا لیکن پتہ نہیں کیوں وہ ہمیشہ میرے قریب ہی رہے۔ ان کی رحلت کا دکھ تو بہت ہے مگر جون ایلیا کے اس شعر سے صبر ملتا ہے۔
اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here