تیسری جنریشن کی ملاقات!!!

0
322
سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن! کیا پتا تھا عالمِ ارواح میں بیٹھے دو دوست مولوی انشاللہ خاں اخبارِ وطن کے مالک و اڈیٹر اور شیخ محمد اقبال جو ایک عالم سر محمد اقبال کے نام سے جانتی ہے اپنی تیسری جنریشن کو ہاتھ ملاتے دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوں گے ہفتہ بروز ٥ جون ١٢٠٢ شہر کے ہر دلعزیز بزنس مین ”ملک سجاد ایمن آبادی ” نے اپنے بنگلہ پر دعوت دی کہ شام کو اْن کے دولت کدہ کو سینیٹر ولید اقبال علامہ اقبال کے پوتے اپنے قدموں سے سجانے آ رہے ہیں آپ نے اپنے دوستوں کے ساتھ تشریف لانی ہے اور میری خوشی میں حصہ بننا ہے میں نے حامی بھری اور میری بیماری ِ نسیان کے باوجود علامہ اقبال اور مولوی انشاللہ کی ایام دوستی کے دریچہ واہ ہوتے گئے علامہ صاحب جب پہلی دفعہ یورپ گئے تو اْن کے سفر نامہ اخبارِ وطن میں چھپتے تھے مولوی صاحب اور علامہ صاحب کے درمیان ایک لطیفہ بڑا مشہور ہوا جو اس طرح تھا۔ علامہ صاحب بازار ِ حکیماں میں رہائش پذیر تھے مولوی انشاللہ اْن کو ملنے گئے تو آگے کچھ طوائفیں تشریف فرما تھیں ،مولوی صاحب واپس مڑنے لگے تو علامہ نے اْن کو زور سے آواز دی مولوی صاحب اندر تشریف لے آئیں یہ سب وطن کی بہنیں ہیں، سب نے زور سے قہقہہ مارا۔
قارئین وطن ! دوستی کی دوسری منزل کی طرف چلتے ہیں جسٹس ریٹائیرڈ جاوید اقبال اور سردار محمد ظفراللہ ایڈوکیٹ کی جانب دونوں کونسل مسلم لیگ کا حصہ تھے ،جاوید اقبال اور سردار ظفراللہ میں دوستی اور رسہ کشی اپنے عروج پر رہتی سردار صاحب کونسل مسلم لیگ کی ریڑھ کی ہڈی تھے اور میاں ممتاز دولتانہ کو بھی پٹری پر چڑھائے رکھتے تھے ،لاہور کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ایوبی آمریت کے آخری دنوں میں وکلا نے ایک جلوس نکالا اور اس کی صدارت محترم جاوید اقبال صاحب کو سونپی گئی لیکن جیسے ہی ڈپٹی کمشنر نے جلوس پر رنگ اور آنسو گیس وغیرہ پھنک کر منتشر کرنے کی کوشش کی جاوید اقبال اپنی لیڈ پوزیشن کو چھوڑ کر پیچھے کی طرف آجاتے سردار صاحب ان کا ہاتھ پکڑ کر پھر آگے کرتے تاکہ جلوس کو منزل مقصود تک پہنچایا جائے لیکن اس سے پہلے کہ تحریک جمہوریت بْری طرح ناکام ہو، سردار صاحب نے جلوس کو لیڈ کیا اور جلوس کو کامیابی کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچایا، اسی طرح کے کئی واقعات دونوں کی دوستی اوررسہ کشی کے تاریخ کی کتابوں میں ملیں گے، سردار صاحب اور جاوید اقبال ٠٧٩١ کے الیکشن میں بھی کونسل مسلم لیگ کے امیدوار تھے ، خاکسار کا بھی تھوڑا سا تعلق داری کا واسطہ رہا مجھ کو اعزاز حاصل ہے کہ مجید نظامی کی محفلوں میں جاوید اقبال صاحب کو جو مقام ملتا تھا وہی شفقت وہ مجھ کو بھی دیتے تھے ایک دفعہ نظامی صاحب کی مجلس میں جاوید صاحب اور ایک جج صاحب میٹنگ کر رہے تھے ،مجھ کو جج صاحب کا نام بھول رہا ہے لیکن وہ ہر وقت نظامی صاحب کے ساتھ ہوتے تھے میں نے ان کو کہا کہ انکل میں پھر آجاؤں گا کہنے لگے بیٹھ جاؤ کھانا بھی کھایا اور ان کی گفتگو کو بھی انجوائے کی اْس کے بعد میں جب بھی لاہور جاتا نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے دفتر میں ان سے ملاقات ہوتی اْن کے سیاسی طور طریقوں پر اعتراضات تو بہت تھے چونکہ رتبہ اور عمر میں بڑے تھے نام بڑا تھا چھوٹی موٹی باتوں کو درگزر کرتے ماہ و سال گزر گئے، اب چاروں عالم ارواح میں اپنی تیسری نسل کو انکے اپنے اپنے مقام پر دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں گے ۔
قارئین وطن ! ملک سجاد ایمن آبادی صاحب نے اپنے بنگلہ پر ایک نوجوان سینیٹر کو دعوت نہیں دی تھی بلکہ ایک تاریخ ساز شخصیت جس نے برصغیر کے مسلمانوں کی زنجیر غلامی کو یہ کہ کر کاٹا!
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
علامہ نے اپنے جاوید کو مخاطب ہو کر قوم کے جاوید وں کو کہا!
اے جانِ پدر! نہیں ہے ممکن
شاہیں سے تدرو کی غلامی
اْس کے پوتے جو پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے اور سینٹ کی ہیومن رائیٹ کی اسٹینڈ نگ کمیٹی کے چیئر مین بھی منتخب ہوئے ہیں ان کے اعزاز میں پی ٹی آئی نیو یارک کی قیادت کے علاوہ تقریباً ٠٦/ ٠٧ دوستو کو جمع کیا میرے ہمراہ عمران خان کے جانثار بیرسٹر رانا شہزاد ریاض صاحب بھی اس بھر پور محفل میں شریک تھے مجیب لودھی صاحب ہمارے پرانے ہاکی اولمپئن نواب صاحب، وسیم خاں ، رانا جاوید ، راشد بھٹی اور بے شمار دوستو کی مہمان نوازی کا شرف حاصل تھا ۔ہمارے ملک صاحب کو جہاں ولید اقبال کی مہمان نوازی کا شرف حاصل تھا وہاں لاہور کے مشہور ستارہ امتیاز افضل پہلوان کے صاحبزادے مدثر افضل کا بھی تھا ،دونوں ایچیسن کالج میں کلاس فیلو بھی تھے ،اْن سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا مدثر صاحب سے مل کر میرے سینے میں لاہور جاگ گیا ہم دونوں پرانے پہلوانوں کو ڈسکس کرتے رہے کیا زمانہ تھا ان پہلوانوں کا افضل پہلوان، یونس پہلوان ، گونگا پہلوان بھولو وغیرہ تو پہلوان کم اور سیاسی زیادہ ہو گئے تھے ـملک صاحب کے جمع گلدستہ میں ایک بڑے پرانے دوست ملک ناصر گوجرانوالہ ملے رات گئے تک جامِ نبیذ سے لطف اندوز ہوتا رہا اور ملک ناصر صاحب سے مسلم لیگ کے اْس دور کو ڈسکس کرتے رہے جب اْس کی بھاگیں خاکسار کے ہاتھ میں تھیں خیر مجلس نے اپنے اختتام کو پہنچنا تھا لیکن تین لوگوں کی کمی میں نے اس خوبصورت مجلس میں محسوس کی امجد نواز صاحب جو پی ٹی آئی کے صدر ہیں، نواب زادہ میاں ذاکر نسیم صاحب اور ہمارے آقا شاہد نواز چغتائی صاحب ،ملک سجاد ایمن آبادی صاحب تھینک یو فار دی ونڈرفل پارٹی زندہ باد اب تیسری جنریشن کہاں تک چلتی ہے ہم دیکھیں گے ؟
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here