سال 2022: معاشی لحاظ سے پاکستان کیلئے سخت سال ثابت ہوا

0
155

اسلام آباد(تجزیہ: راجہ کامر) بیرونی ادائیگیوں کے مسائل پاکستان کے لیے شدید تر ہوگئے ہیں جبکہ عالمی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط نے زرِمبادلہ کا حصول مشکل بنادیا ہے۔ پاکستان ان دنوں شدید معاشی صورتحال دے دوچار ہے۔ موجودہ سال 2022 بس رخصت ہونے کو ہے مگر کیا اس سال کے ڈوبتے سورج اور آئندہ سال کے ابھرتے سورج کے ساتھ پاکستان کے مسائل ختم ہوجائیں گے؟ بدقسمتی سے ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ پاکستان کو آئندہ مالی سال بھی شدید اور بدترین معاشی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ پاکستان کے لیے سال 2022 معاشی لحاظ سے کیسا رہا، آئیے جائزہ لیتے ہیں۔ سال 2022 کو معاشی لحاظ سے دو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک دور رواں سال کے ابتدائی 4 ماہ کا ہے۔ جس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت قائم رہی جبکہ باقی دور جس میں مسلم لیگ (ن) کی زیرِ قیادت اتحادی حکومت قائم ہے۔ پاکستان کو سال 2022 کی ابتدا ہی سے بیرونی ادائیگیوں کے مسائل کا سامنا تھا اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان زرِمبادلہ ذخائر میں اضافے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ تھا۔ اس پروگرام میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود کچھ فرق نہیں آیا اور آئی ایم ایف پاکستان کو کسی قسم کی رعایت دینے کے لیے تیار نظر نہیں آیا۔ عمران خان کے خلاف 10 اپریل کو تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی تو اس وقت روپے کی قدر 186.72 روپے تھی جو بڑھ کر 240 روپے تک جا پہنچی تھی اور دمِ تحریر 224 روپے پر موجود ہے۔ اسی طرح پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں اتار چڑھا کے بعد بینچ مارک کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس 41 ہزار پوائنٹس کے قریب موجود ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے بنیادی شرح سود جو اس سال اپریل میں 11 فیصد کے لگ بھگ تھیوہ 5 فیصد اضافے کے بعد 16 فیصد ہوگئی ہیجبکہ مہنگائی کی شرح جواپریل میں 13.4 فیصد پر تھی اب بڑھ کر 26 فیصد سے زائد ہوچکی ہے۔ اس طرح مہنگائی کی شرح پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے اختتام کے بعد سے دگنی ہوچکی ہے۔ اس پوری صورتحال میں رہی سہی کسر مون سون بارشوں اور سیلاب نے پوری کردی۔ ایک طرف تو معیشت پہلے ہی مشکلات کا شکار تھی تو دوسری طرف سیلاب کی وجہ سے پورے پاکستان میں ہی تباہی ہوئی مگر سندھ اور بلوچستان کے علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ آج بھی دونوں صوبوں کے متعدد نشیبی علاقوں میں پانی کھڑا ہے۔ پاکستان کو اس وقت بیرونی ادائیگیوں کے بحران کا سامنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن ہی نہیں بلکہ حکومت میں شامل افراد بھی پاکستان کے نادہندہ ہونے کی باتیں کررہے ہیں۔ تاہم کئی ماہرین اس سے اختلاف کرتے ہوئے یہ رائے رکھتے ہیں کہ پاکستان نادہندہ نہیں ہوسکتا کیونکہ عالمی سطح کے اہم چیلنجوں کا سامنا ہے۔ یوکرین جنگ کی وجہ سے اجناس کی بین الاقوامی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور ایندھن کی عالمی مارکیٹ اور گندم کی مارکیٹ میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ گوکہ عالمی منڈی میں اس وقت ایندھن سستا ہورہا ہے اور اپنی بلند ترین سطح سے تقریبا 40 سے 50 فیصد نیچے آچکا ہے مگر اب بھی استحکام کے حوالے خدشات موجود ہیں۔ دوسری طرف مغربی ممالک خصوصا امریکی مرکزی بینک کی جانب سے بنیادی شرح سود بڑھانا اور مانیٹری پالیسی سخت کرنا اہم چیلنج ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو کمرشل قرضے لینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ مگر ان تمام چیلنجز کے باوجود گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے حالیہ پالیسی بیان میں پاکستان کے نادہندہ ہونے سے متعلق افواہوں کی تریدد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنی تمام بیرونی ادائیگیاں معمول کے مطابق کرے گا اور موجودہ مالی سال کی دوسری ششماہی میں زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھ جائیں گے۔ اس وقتاسٹیٹ بینک کے پاس 6 ارب ڈالر سے زائد کے زرِمبادلہ ذخائرموجود ہیں جبکہ عمران خان کی حکومت کے اختتام کے وقت اسٹیٹ بینک کے پاس 10 ارب ڈالر سے زائد موجود تھے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کے زرِمبادلہ ذخائر میں ہر مہینے 50 کروڑ ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔ اگر پاکستان کے قرضوں کے حجم پر نگاہ ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ موجودہ مالی سال کے دوران پاکستان کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور دیگر مدات میں تقریبا 33 ارب ڈالرکی ضرورت ہے۔ اس میں جاری کھاتے کی مد میں ادائیگیوں کے لیے 10 ارب ڈالر اور بیرونی قرضوں کی واپسی کی مد میں 23 ارب ڈالر شامل ہیں۔ جولائی سے دسمبر تک پاکستان نے بیرونی قرضوں کی مد میں 6 ارب ڈالر سے زیادہ قرض ادا کردیا ہے۔ اس کے علاوہ دوست ملکوں نے 4 ارب ڈالر قرض واپسی کے بجائے رول اوور کردیا ہے۔ اس طرح 22 ارب میں سے 10 ارب ڈالر قرض کا انتظام ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ 8 ارب 30 کروڑ ڈالر کا قرض رول اوور کرنے کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ پاکستان کے تجارتی قرضوں میں سے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر مالیت کا قرض دسمبر میں واپس کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے دو قریبی دوست ملک سعودی عرب اور چین سے مجموعی طور پر 14 ارب ڈالر قرض اور سرمایہ کاری پر اصولی سمجھوتہ ہوگیا ہے۔ اب اس کی باقی جزیات پوری کرنے پر یہ رقم پاکستان کے نہ صرف زرِمبادلہ ذخائر کو بڑھانے میں مددگار ہوگی بلکہ اس سے پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کو بھی تقویت ملے گی۔ ڈالر کو بچانے کے لیے اسٹیٹ بینک نے متعدد اقدامات کیے ہیں جن میں سفری اخراجات کے لیے زرِمبادلہ کی حد کم کرنے، موبائل ایپلیکیشنز کی خریداری کے لیے گوگل پلے اسٹور پر ادائیگی روکنے اور بعض صنعتوں کے فاضل پرزہ جات کی درآمد عارضی طور پر روکنا شامل ہے۔ جس وقت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو اس وقت روپے کی قدر 185 روپے تھی جو اب بڑھ کر سرکاری قیمت 224 روپے کے قریب ہے۔ اس قیمت میں 240 روپے تک گراوٹ دیکھی گئی ہے۔ مگر سرکاری قیمت کے باوجود مارکیٹ میں ڈالر کی کمی کی وجہ سے سرکاری قیمت سے زائد پر ڈالر ٹریڈ ہونے لگا اور اس ٹریڈ میں بینکوں نے بھی دل کھول کر منافع کمایا اور انٹر بینک میں قیمت سے 10 روپے اضافے پر ڈالر فروخت کیے گئے۔ ان بینکوں کی نشاندہی ہونے کے باوجود تاحال ان کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔ اس وقت اوپن اور بلیک مارکیٹ میں ڈالر اعلان شدہ قیمت سے اضافی پر فروخت ہورہا ہے۔ منی چینجرز پر کریک ڈان کے باوجود اس وقت بھی ڈالر 10 فیصد پریمیم پر دیا جارہا ہے جبکہ اس کے علاوہ ملک میں تیزی سے بلیک مارکیٹ ایک مرتبہ پھر سر اٹھا رہی ہے۔ پشاور میں ڈالر کی غیر قانونی خرید و فروخت میں ملوث بہت سی غیر قانونی ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here