اردو ادب، مزاح، مغل برادری اور فوج کے ایک عظیم مینارے کرنل محمد خان کو پڑھ کر فی البدی ہنسی چھوٹتی ہے انکی ایک کتاب ”بزم آرائیاں” جسے میں اپنے ایک آرائیں لنگوٹیے چوہدری ارشد کا توا لگانے کے لیے اکثر استعمال کیاکرتا تھا کہ کیا تم نے بزم آرائیاں پڑھی ہے الٹی پلٹی اپنے سے گھڑ گھڑا کر بیچارے کو جگتیں لگاتا رہتا پھر ایک دن ایسا ہوا کہ اس کو کہیں سے بزم آرائیاں مل گئی مجھے گالیاں دینے کی بجائے گلے مل کر ہنستا رہا اسی کتاب سے ایک فکر انگیز اقتباس ہے کہ چند سال ہوئے انگلستان کے ایک مشہور ماہر تعلیم پاکستان آئے ہم نے انہیں ایک انگلش میڈیم سکول دکھانے کے بعد فخر سے انکی رائے پوچھی جو سننے کے قابل تھی کہنے لگے بھئی آپکی ہمت قابل داد ہے جو اپنے بچوں کو غیر ملکی زبان میں تعلیم دے رہے ہیں اگر میں انگلستان میں انگریز بچوں کو اردو کے ذریعے تعلیم دینے کی سفارش کروں تو مجھے یقیناً اگلی رات ہسپتال میں کاٹنی پڑے ،آپ واقعی بہادر ہیں” وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے انگریزی میں جاری کردہ ایک سرکلر آرڈر کہ جس میں کہا گیا ہے کہ ”وزرا اور سرکاری افسران کو بھی ہدایات جاری کی جائیں گی کہ اپنا پیغام تقاریر اپنی قومی زبان میں عوام تک پہنچائیں ،ہماری عوام کی زیادہ تر تعداد انگریزی زبان نہیں سمجھتی، عوام کی توہین مت کریں ،وزیراعظم چاہتے ہیں جب بھی کوئی عوام سے جڑا پیغام یا تقاریر ہوں وہ ہماری قومی زبان اردو میں ہوں” انیس سو تہتر کے آئین میں اردو کو سرکاری سطح پر بھی لاگو کرنے بارے قانون تھا کہ دس سال بعد سرکاری زبان اردو کر دی جائے گی، کئی دس سال آئے اور گزر گئے قانون میں چھوٹ ملتی رہی اور اس پر عملدرآمد کرنے کا حوصلہ آج تک کسی حکومت کو نہیں ملا ،بابو صاحب کبھی بھی اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں ماریں گے ،روٹی روزی لگی ہے لگی رہنی چاہئے کے مصداق ارباب اختیار کی طرف سے کبھی کوئی کوشش اگر ہوئی بھی تو بیوروکریسی نے دبا دی، پاکستان میں فوج سے بھی اوپر اگر کسی کی چلتی ہے تو وہ انگریزی بابو ہی ہیں لیکن داد ہے عمران خان کو کہ جس نے ایسا اقدام اُٹھایا علاوہ ازیں چار طرح کے تعلیمی نظام او لیول، سرکاری تعلیم، انگلش میڈیم اور مدرسے جہاں سے پڑھ کر جاہل، بابو، مولوی اور کلرک ہی پیدا ہوتے ہیں۔ لیڈر ،سیاستدان ،سکالرز یا سائنسدان نہیں لہٰذا بہتری کے لیے یکساں تعلیمی نظام کا ڈول ڈالا گیا ،سابق بیوروکریٹ وزیر تعلیم شفقت محمود دن رات اس بارے نصاب بنانے اور اقدامات کرنے میں لگے ہو ئے ہیں ، شیڈول دے دیا گیا ہے جس کے تحت امسال نرسری اور پہلی سے پانچویں جماعت تک یکساں نصاب لاگو ہو گا ،دو ہزار بائیس میں چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک جبکہ دو ہزار تیئس میں الیکشن سے پہلے نویں سے بارہویں جماعت تک کا یکساں نصاب لاگو کر دیا جائے گا۔ یقین کریں کہ یہ ایک اجتماعی قومی نیکی ہو گی جس پر آئندہ آنے والی نسلیں فخر کریں گی۔ انشااللہ !
٭٭٭