کردار سازی سے دعائوں میں اثر پیدا کریں !!!

0
90
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے آج ایک نازک موضوع پر لکھنے کا سوچا جب انسان یہ سوچے اس کی دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتی تو اپنے کردار کا جائزہ لے اور محاسبہ کرے ایسا کرنے سے یقیناً ایک اچھے نتیجے پر پہنچے گا اور اس کی دعائوں یہاں تک کہ باتوں میں بھی اثر ہوگا اور ایسا وہ خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریگا۔جس موضوع پہ گفتگو کا آغاز کر رہا ہوں وہ صرف اس اخبار کی بات نہیں ہے جس جس سوشل میڈیا پر میری شمولیت ہے واٹس آپ گروپس میں دوسرے گروپس میں میری شمولیت ہے، ہر جگہ ایسا ہی مشاہدہ ہے ،ہمارا سارا focus، ساری توجہ اعمال و عبادات ہی پہ مرکوز نظر آتی ہے ۔ طویل وظائف، کثیر تعداد کی تسبیحات، وغیرہ وغیرہ۔اور ان اعمال کے نتیجے میں حاصل ہونے والے دنیاوی اور اخروی فوائد کی ایک پرکشش فہرست۔ابھی ایک ملنے والی بہن نے ایک ایسی ہی پوسٹ فارورڈ کی ہے (میرے مخاطب میری لائق احترام بہن نہیں بلکہ وہ صاحب ہیں جنہوں نے اسے تحریر کیا) جس میں ایسے ہی کسی وظیفے کے بعد دو سو (نصف جس کے سو ہوتے ہیں) حورالعین سے شادی کے وعدے کا بھی ذکر ہے۔۔۔۔ اس پرکشش incentive پہ دو سوال تو بنتے ہیں۔ 1۔ کیا یہ والی دو سو حوریں ان 72 کے علاوہ ہیں جو ویسے ہی ہر جنتی کو مل جانی ہیں؟ 2۔ اس وظیفے میں خواتین کیلئے تو ہمیں کوئی ترغیب نظر نہیں آتی ، ایسا کیوں ہے؟ وظائف، عبادات ہماری زندگی کا حصہ ہیں، ہم تو وہ خوش نصیب لوگ ہیں کہ جن کے پاس دعاؤں کیلئے “مفاتیح” اور “صحیفہء کاملہ” جیسے عظیم خزانے موجود ہیں۔ دعائے کمیل اور اسم اعظم رکھنے والی دعائے مشلول بھی ہماری ہی میراث ہے۔ یقینا” ہم میں سے سبھی شب جمعہ ان دعاؤں کا اہتمام کرتے ہیںلیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ عبادات کی بجا آوری دین پہ عمل کا محض ایک حصہ ہے، سبھی کچھ نہیں ہے۔ دین کے احکام ہمارے 24 گھنٹوں پہ لاگو ہیں، ہمارے آپسی تعلقات، ہمارا لین دین، کاروبار، ہمارے معاملات، محفلوں اور خلوتوں میں ہمارا چلن۔ ہمارے روز، ہماری شبیں۔ان سب کا احاطہ کرتا ہے، ہمارا دین اور ان سب پہ رہنماء کے اصول متعین ہیں اللہ رب العزت نے ہمارے جس عمل سے اپنی ذمہ داری ہٹا رکھی ہے ، وہ ہے حقوق العباد جسے اس نے مکمل طور پہ صاحب معاملہ پہ چھوڑا ہے جس کسی کا حق چاہے وہ کتنا ہی قلیل کیوں نہ ہو، ہم پہ اگر واجب الادا ہے تو جب تک وہ settle نہیں ہوگا، ہماری عبادات، ہمارے وظائف بے سود رہیں گے۔ جنت اور حور العین کی بات تو بہت آگے کی ہے ، ہماری راتوں کا چین و آرام بھی یہیں ساتھ چھوڑ جائیگا۔ اسی طرح ہم خود کا محاسبہ کریں کہ کہیں ہم جانے انجانے میں قطع رحمی کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔ کیا میرے عزیزوں میں ایسا کوئی ہے جو میری بے رخی کا شکارہے ۔ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے ، اگر ایسا ہے تو قطع نظر اس امر کے کہ غلطی کس کی ہے، کس کی نہیں۔ آگے بڑھ کے گلے لگا لینا عظمت کی نشانی ہے ۔جب ہم حقوق العباد اور صلہء رحمی کے معاملات سیدھے کرلیں تو پھر بیشک بچھائیں مصلیٰ اور ادا کریں عبادات، اب جو ہمیں لطف آئے گا وہ بیان نہیں کیا جاسکتا، آزمائش شرط ہے ۔
بات میں اثر تب آتا ہے جب اپنی ذات سے “میں” نکال دی جائے کہ قلب سلیم میں اس کی جگہ ہی کوئی نہیں ہے، اپنی “میں” اور انا کو جوتوں تلے ڈال کے عاجزی اور انکساری سے سر کو زمین پہ رکھنے والوں ہی کو آسمان کی وسعتیں عطا ہوتی ہیں۔
آجکل کے تیز دور میں ایسا بہت مشاہدہ میں آیا کہ لمبے وظائف اور ہزاروں کی تعداد میں ورد وغیرہ وائرل ہوئے جبکہ مسنون دعائیں ہماری مستند کتابوں میں درج ہیں اسکے علاوہ منتی کہانیاں اور فریادی نوحے و مناجات بھی مروج تھے اور ہیں
اب آجکل کچھ ایسی اختراعات بھی ایجاد ہو چلیں کہ خاص وقت یہ دعائیں اتنی تعداد میں پڑھ لو یا مخصوص طور و طریقے سے پڑھو یہ جنتریوں کی دین اور جعلی بابائوں و ملائوں کے کارنامے ہیں جو انہوں نے بتدریج سادہ لوح لوگوں کو متھے مار دیئے ، اصل وظائف انکی تاثیرات ان کی تاریخ راہ سیر سلوک کے استادوں میں ملیں جو ہمارے یہاں بھی ایک حد تک مخصوص لوگوں تک محدود رہیں جیسے ہمارے کچھ خاص علمائے کرام ماضی قریب کے آقا تقی بہجت ہیں وہ بہت سی چیزوں کا کھلی آنکھوں مشاھدہ کیا کرتے تھے اور اس فیلڈ میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں بالکل اسی طرح ہمارے ایک عالم دین تصور میں کربلا کا منظر دیکھ سکتے تھے ان کا ابھی مجھے نام یاد نہیں آرہا یہ عالم دیں مجتھدین تقوی ٰکی اس منزل پر تھے کہ وہ اس علم کو سنبھال سکیں ان تمام کو علم ودیعت کیا گیا اور ساتھ کچھ ازکار لیکن وہ ازکار ہر کسی کیلئے نہیں ہوتے اور نہ عام کیے جاتے ہیں اس کی ہی ایک شاخ دیکھا دیکھی نکلی جو تصوف کے حامی تھے اور انہوں نے حروف و آیات کے زکات اور اس کے طور طریقے بیان کیے مثلاً سوا لاکھ کی تعداد میں پڑھنا وغیرہ وغیرہ۔
یہی وجہ ہے کہ ہم کو گود سے ہی تحصیل علم کا حکم ہوا جو قبر تک جاری رہے یعنی وقت آخر تک ایک مثال ہے ایک رتی علم کیلئے ایک من عقل کی ضرورت ہوتی ہے جو صاحب علم ہوگا وہ گمراہ یا کمزور عقیدگی کا شکار نہیں ہوگا
مولا علی کے خطبات میں عبادت اور اس کی اقسام کا بھی زکر موجود ہے جس کو مولا نے تجارت یا ڈر والی عبادت جو جنت کے لالچ یا جہنم کے خوف سے کی جائے قرار دیا اور اللہ کی عظمت کا احساس دلایا کہ اللہ کی عبادت اس کی عظمت اور لائق عبادت سمجھ کر کی جائے۔ بے شک جب انسان کا علم اس کو باشعور بنادے اور وہ عمل کے ساتھ دنیا کے مشکل ترین کام اپنے محاسبہ کا قصد کرے تو اس وقت وہ عقل کامل ہوتی ہے اور انسان خود اپنی اصلاح کرتا ہے یہی وجہ ہے اس وقت وہ حقوق العباد کی طرف مائل ہوتا ہے اور صلح رحمی کے ساتھ عفو و درگزر سے کام لیتا ہے،پھلدار درخت ہی جھکتا ہے جہاں زندگی ہو اکڑتا تو بیچارہ بے جان جسم ہے۔
ہم سب الحمد للہ زندہ ہیں ابھی وقت ہے میری کسی گفتگو سے کسی بھائی بہن کو تکلیف پہنچی ہو سہواً تو معافی کا خواستگار ہوں آپ پورے گروپ سے کسی سے بھی کوئی نہ رنجش ہے اللہ نہ کرے کبھی ہو تو بات کرکے دل صاف کرلیں گے اس تحریر کو پڑھ اور سمجھ لیا جائے تو یہ نوبت کبھی نہ آئے گی ان شاء اللہ ،اللہ پاک آپ سب کو آسانیاں عطا فرمائے اور محبت و خلوص مابین پروان چڑھے آمین جو لوگ سونے کے لالچ میں کیمیا گری کرتے رہے، ہمیشہ ناکام ہوئے اور جن کے نزدیک سونے کی اہمیت مٹی سے زیادہ نہیں تھی، انہوں نے جب چاہا، مٹی کو سونا بنا دیا!۔
بس اب ان بیانات اور باتوں میں جو اوپر مذکور ہوئیں سمجھدار لوگوں کیلئے کافی علم پوشیدہ ہے ،اُمید ہے احباب سمجھ کر اپنے معاملات درست فرمائیں گے اور فیض یاب ہونگے ،میری دعا ہے پروردگار آپ کو اپنے مقصد میں کامیاب فرمائے اور جائز حاجات روا ہوں ،آمین!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here