سوموار کی صبح سویرے پاکستان میں ڈہرکی اور ریتی ریلوے اسٹیشن کے درمیان ملت ایکسپریس اور سرسید ایکسپریس کے سنگین ترین حادثے میں جہاں 55 کے لگ بھگ انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں وہیں اس سچائی کو بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ پاکستان کو چلانے کیلئے اگر فرشتے بھی زمین پر آجائیں تب بھی پاکستان کے حالات سدھرنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ اوپر والا کوئی معجزہ عطاء فرما دے اور ہمارے لوگوں کو بحیثیت قوم اپنے فرائض و ذمہ داریوں کی محض سوچ ہی نہیں، عمل کی توفیق عطاء فرما دے۔ اس حادثے کی تفصیلات تو آپ تک پرنٹ ،الیکٹرانک،سوشل میڈیا کے ذریعے پہنچ ہی چکی ہونگی، وزیراعظم، وزیر ریلوے کی تحقیقات کیلئے ہدایات و رپورٹ کے بارے بھی آگاہی مل چکی ہوگی لیکن اس امر پر غور کیجئے کہ گزشتہ پے درپے حادثات کی تحقیقات و رپوٹوں کے نتیجے میں حادثات کا یہ خونی کھیل کیوں نہیں رُک سکا ہے۔ متذکرہ ٹریک پر پہلے بھی انتہائی حادثات ہو چکے ہیں، تحقیقات ہو چکی ہیں، ٹریک کی تبدیلی کے، کبھی ڈرائیور کی غلطی کے اسباب بتا کر سدھار کے منصوبوں کے اعلانات کئے گئے۔ وزراء کی تبدیلی ہوئی، اعلیٰ عہدیدار تبدیل کئے گئے۔ ML1 منصوبوں پر عمل درآمد، ٹرینوں کی بہتری اور روانگی سے قبل مکمل انسپکشن اور سسٹم کو اپ ڈیٹ کرنے کا عزم و عمل ظاہر کیا گیا لیکن؟ حادثہ پھر بھی ہو گیا، ایک عینی شاہد کے مطابق ملت ایکسپریس کے کراچی سے چلنے سے قبل ہی کلپ کے ڈھیلے ہونے کا پتہ چل چکا تھا، ٹرین جب جائے وقوعہ پر پہنچی تو تیز رفتاری کے باعث کلپ نکل گیا اور بوگیاں ڈی ریل ہو کر متوازی پٹری پر جا گریں۔ دو گھنٹے سے زیادہ بوگیاں ٹریک پر اُلٹی پڑی رہیں، مسافر پھنسے ہوئے تھے اور نکلنے کی تگ و دو میں تھے، علاقہ کی نوعیت کے باعث امدادی کارروائیوں میں تاخیر کے باعث مقامی آبادی و انتظامیہ امداد میں مصروف تھی کہ سامنے سے آنے والی سر سید ایکسپریس زور دار دھماکے سے گری ہوئی بوگیوں سے ٹکرا گئی، قیامت کا سماں تھا جو کچھ ہوا سب نے دیکھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ملت ایکسپریس میں خرابی تھی تو اس کا سد باب روانگی سے پہلے کیوں نہیں کیا گیا، جب بوگیاں ڈی ریل ہو کر متوازی ٹریک پر جا گری تھیں تو ڈائون ٹرینز کو روکنے کیلئے مواصلاتی رابطہ اور سگنل کنٹرول کیوں نہ کیا گیا۔ کیا متعلقہ عملہ خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا یا اسے مذکورہ صورتحال کا علم ہی نہیں تھا۔ ہر دو صورتوں میں فرائض سے غفلت، لاپرواہی اور نا اہلی کی تصویر ہی اُبھرتی ہے جو ایک ذمہ دار معاشرے کے قطعی مطابق نہیں بلکہ ایک بدنما دھبہ اور معاشرتی بے حسی و غیر ذمہ دارانہ عمل کی عکاسی ہے۔ معاشرہ افراد کے کردار و عمل سے پہچانا جاتا ہے انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی اطوار و عمل پر بھی۔ اگر ذہنوں میں خود غرضی اور اعمال میں ذاتی مفاد ہوں تو معاشرے میں بہتری نہیں غلاظت پروان چڑھتی ہے۔ غور کیجئے کہ وطن عزیز میں خود غرضی و ذاتی مفاد کا زہر اس طرح سرایت کر چکا ہے کہ اوپر اشرافیہ سے لے کر عوام تک سب ہی اسی زہر کے زیر اثر ہیں۔
سیاست سے لے کر صحافت، کاروبار، معاشرت تک غرض ہر شعبہ اسی زہر سے متاثر ہے۔ گزشتہ ہفتہ ہم نے اپنے کالم میں تذکرہ ایک نام نہاد بلاگر و جعلی صحافی اسد طُور پر حملے کے تناظر میں حامد میر کے فوج دشمن بیانیئے اور غلیظ بیانیئے و دھمکیوں پر اظہار تاسف کیا تھا کہ یہ شخص اپنے مربیوں کے ایجنڈے اور اپنے مفاد کے پیش نظر وطن فروشی کی حد تک پہنچ کر نہ صرف ملک دشمنی کر رہا ہے بلکہ صحافت میں غلاظت کا مرتکب ہو رہاہے۔ اس واقعہ کے پس منظر میں مزید حقائق سامنے آنے پر ایسے انکشافات ہوئے ہیں کہ ملک دشمنی اور فوج مخالفت میں یہ شخص محض اکیلا ہی نہیں بلکہ اس سازش میں میڈیا کی دیگر بہت سی شخصیات اندرون و بیرون ملک شریک ہیں اور اس گندی مہم میں بھارتی و مغربی ایجنسیوں اور میڈیا کے آلۂ کار بن کر مسلسل پاکستان مخالف پراپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ ان شیطان صفت لوگوں میں محض ایک دو نہیں متعدد صحافتی نام سامنے آئے ہیں۔ منیزے جہانگیر، عاصمہ شیرازی کیساتھ حسین حقانی، ریحام خان، ماروی سرمد، طحہٰ صدیقی، گل بخاری، نائلہ عنایت کیساتھ اور بھی بہت سے نام شامل ہیں جو پاکستان دشمنی اور فوج مخالفت کی اس غلاظت میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ حامد میر کا تو سوشل میڈیا پر اس کے ہینڈلر کا انکشاف ہوا ہے جو بھارت سے اس کا اکائونٹ آپریٹ کرتا رہا ہے، اس حقیقت کے افشاء ہونے پر ہماری خبر کے مطابق حامد میر نے یہ اکائونٹ ڈیلیٹ کر دیا ہے۔ اسی طرح عاصمہ شیرازی نے بھی مبینہ طور پر فریڈم نیٹ ورک نامی بھارتی سپورٹڈ ویب سائٹ جس سے وہ شیطانی پروپیگنڈہ کر رہی تھی اپنی ویب سائٹ ختم کر دی ہے لیکن یہ سب شیطان اپنی مجرمانہ حرکتوں سے چُوکے نہیں ہیں اور دی پرنٹ نامی ایک جریدے سے پاکستان، فوج، سیکیورٹی ایجنسیز اور عمران خان کیخلاف زہر اُگلنے اور بھارت و دیگر پاکستان دشمن قوتوں کے بیانیئے کا پرچار کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ دی پرنٹ نامی یہ جریدہ / چینل PTN کو سب سے زیادہ سپورٹ کرتا ہے، اس کے حق میں Vlog پروگرام کرتا ہے نوازشریف کے حق میں پروگرام کرتا ہے نیز وہ سارے پروگرام و آرٹیکل کور کرتا ہے جو پاک فوج، ایجنسیز اور عمران خان سے نفرت پر مبنی ہوں۔ ہماری عرض یہ ہے کہ حکومت اور ہماری اسٹیبلشمنٹ ان ملک دشمن میڈیا عناصر کے گند اور غلاظت پر جو ہر طرح سے ملک دشمنی ہے کوئی واضح عملی اقدام کرنے سے کیوں گریزاں ہیں اور وہ کونسا وقت ہوگا جب میڈیا سے اس گند کا صفایا کیا جا سکے گا۔
مخالفت اور مفاداتی گند کا یہ سلسلہ سیاست کے منظر نامے پر تو ایک عرصے سے جاری ہے اور خصوصاً نوازشریف کا فوج و حکومت مخالف بیانیئے کا فائدہ ملک دشمن قوتوں خصوصاً بھارت کے حق میں جاتا ہے لیکن گزشتہ اتوار کو کراچی میں ملک ریاض کے بحریہ ٹائون پر قوم پرست سندھیوں کا حملہ، جئے سندھ کے پرچموں کیساتھ توڑ پھوڑ، آتش زنی، حکومت سندھ اور پولیس کا تاخیری رویہ، ریاض ملک کی خاموشی بالخصوص وفاق اور سندھ کے درمیان پانی اور سندھ کو نظر انداز کئے جانے کے سندھ کے حکومتی شکوے کے پس منظر میں معمولی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے اور اس کے پس پُشت حقیقت کا سامنے آنا بہت ضروری ہے۔ اس وقت موجودہ حکومت کی کوششوں سے پاکستان نہ صرف اندرونی محاذ پر معاشی ترقی کی راہ پر خصوصاً میکرو انڈیکیٹرز کے مثبت اشاروں کے حوالے سے کامیاب ہو رہا ہے بلکہ عالمی طور پر بھی ماحولیاتی پروگرام، فیٹف اور دیگر حوالوں سے بھی اہمیت حاصل کر رہا ہے۔ ضروری ہے کہ سیاست، صحافت و دیگر شعبوں میں موجود غلاظت کی صفائی اور اس کے ذمہ داروں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے کہ پاکستان کی بقاء و سلامتی اور خوشحالی سے بڑھ کر کچھ بھی اہم نہیں ہے۔
٭٭٭