اسلام آباد (پاکستان نیوز) 90ممالک کی330 طاقتور شخصیات کے بیرون ملک اثاثے، اردن ، قطر، امارات، یوکرین، کینیا، ایکواڈور، چیک ری پبلک کے حکمران شامل، دو تہائی آف شور کمپنیاں برٹش ورجن آئی لینڈ ، دوسرے نمبر پر امریکا میں ، شاہ عبداللہ دوم کی کیلیفورنیا سے واشنگٹن اور لندن تک اربوںکی پراپرٹیز، اماراتی وزیر اعظم محمد بن راشد اور قطری امیر شیخ تمیم بھی آف شورز کے مالک،روسی صدر پیوٹن کا نام براہ راست نہیں تاہم ساتھیوں کے ذریعے خفیہ اثاثوں سے منسلک ہونے کا الزام، سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر ، آذربائیجان کے صدر الہام کے اہل خانہ کی بھی اربوںکی خفیہ جائیدادیںسامنے آئی ہیں۔غیرملکی میڈیا کے مطابق آئی سی آئی جے میڈیا کنسورشیم کی اتوار کو شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق 90 ممالک سے تعلق رکھنے والے 330 سے زائد عوامی عہدیداروں کی دولت کا انکشاف ہوا ہے، ان میں سے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 35 موجودہ اور سابق رہنما ہیں، اردن کے بادشاہ، قطر اور دبئی کے حکمرانوں، یوکرین، کینیا اور ایکواڈور کے صدور، چیک ری پبلک اور لبنان کے وزرائے اعظم اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے نام اِن خفیہ فائلوں میں سامنے آئے ہیں۔ نئی معلومات میں 200 ممالک کے افراد کی 29 ہزار آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوا ہے اور ان افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق روس، برطانیہ، ارجنٹائن، چین اور برازیل سے ہے،عالمی رہنمائوں اور دیگر عوامی عہدیداروں کی زیادہ تر آف شور کمپنیاں برٹش ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ہیں،جس وقت امریکا کالے دھن کو چھپانے کیلئے غریب ممالک کی مذمت کرتا ہے اسی وقت پنڈورا پیپرز میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پہلی مرتبہ امریکا چھپی ہوئی دولت کیلئے پرکشش ملک بن چکا ہے، امریکا دنیا میں ٹیکس کا پیسہ چھپانے کیلئے دوسرا سب سے بڑا ملک ہے جہاں صرف ایک ریاست (شمالی ڈکوٹا) میں 300? ارب ڈالرز کے اثاثے چھپائے گئے ہیں۔ امریکا کی دیگر 16? ریاستوں میں 206? ٹرسٹ کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں جبکہ جنوبی ڈکوٹا میں سب سے زیادہ 81? ٹرسٹ کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں اور یہیں سے زیادہ ڈیٹا ملا ہے۔ فائلوں پر تحقیق سے 45? ممالک سے تعلق رکھنے والے 130? ارب پتی افراد کے آف شور اثاثہ جات کا انکشاف ہوا ہے۔ فوربز میگزین کے مطابق، اِن 100? ارب پتی افراد کے پاس کْل 600? ارب ڈالرز کا دھن موجود ہے۔ اگر آف شور کمپنیوں کو ٹیکس حکام یا ریگولیٹرز (جیسا کہ پاکستان میں سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کا ادارہ ہے) کے پاس رجسٹر کرایا گیا ہے تو یہ کمپنیاں قانونی حیثیت رکھتی ہیں۔ کاروباری شخصیات کا کہنا ہے کہ وہ ایسی کمپنیاں اِس لیے بناتے ہیں تاکہ عالمی سطح پر کاروباری لین دین میں آسانی ہو لیکن ایسے اقدامات پر اکثر تنقید کی جاتی رہی ہے کیونکہ یہ کام اکثر اوقات ٹیکس بچانے یا پھر کم ٹیکس والے ممالک میں صرف کاغذات کی حد تک قائم شیل کمپنیوں کے ذریعے اپنی دولت یا منافع کو ایک ملک سے دوسرے منتقل کرتے ہیں۔