کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کہاں سے شروع کروں مجھے الفاظ نہیں مل رہے اور میرا قلم بھی اجازت نہیں دے رہا کہ میں اس عظیم فنکار کے بارے میں کچھ لکھوں ابھی تک میں معین اختر کو بھی نہیں بھلا پایا کہ پاکستان کا ایک اور مزاح کی دنیا کا بادشاہ جس کی سلطنت پوری دنیا میں جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں اس نے جو اپنے نقوش چھوڑے ہیں وہ رہتی دنیا تک ختم نہیں ہوسکے ،اس ناگہانی صدمے کو برداشت کرنا ہم جیسے دوستوں کے لیے جس نے اس عظیم فنکار کے ساتھ40سال گزارے ہوں مجھے تو لگتا ہے جب وہ بیمار ہوا اور حکومت پاکستان نے اس کے علاج کے لیے بندوبست کیا اس میں جو تاخیر ہوئی کیونکہ ڈاکٹروں کا یہی کہنا تھا کے اسکو پندرہ دن کے اندر امریکہ پہنچنا ہے ورنہ اس کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے اور جو ایمبولینس میں جو تاخیر ہوئی وہی اس کی موت کا بہانہ بن گئی کیونکہ اس کا بلاوا آچکا تھا یہ تو بہانہ بن گیا ہم کیا سوچتے ہیں اور کیا ہوجاتا ہے بہرحال دنیائے کامیڈی کا وہ باب ختم ہوگیا جس نے پاکستان کا وقار پوری دنیا میں بلند کیا اس کے اندر جو وطن کی محبت کا جذبہ تھا وہ بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے۔یعنی دو فنکار کراچی میں ایسے تھے معین اختر اور عمر شریف جو پوری دنیا میں اپنے فن کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ لاہور کا امان اللہ بھی اپنی نوعیت کا واحد فنکار تھا جس کا نعم البدل کبھی نہیں آسکتا ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جہاں تک عمر شریف کا تعلق ہے وہ تو اسٹیج کا واحد فنکار تھا جب اسٹیج پر وہ چڑھ جاتا تھا تواس کے سامنے الفاظ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے تھے بقول معین اختر نے خود مجھ سے کہا تھا کہ عمر شریف وہ واحد آرٹسٹ ہے جسکو خود نہیں معلوم کہ وہ کیا ہے اس کے سامنے کام کرتے ہوئے بڑے بڑے آرٹسٹ گھبراتے تھے اس نے سٹینڈ اپ کامیڈی کا مزاج ہی تبدیل کردیا تھا پہلے کامیڈین لطیفے سناتے تھے آوازوں کی کاپیاں کرتے تھے لیکن جب عمر شریف آیا تو اس نے سب کچھ تبدیل کردیا اور وہ گھنٹوں اسٹیج پر کھڑا رہتا تھا اور مجال ہے کہ لوگ اس کو داد دیئے بغیر رہ سکیں اس نے کامیڈی کو ہی تبدیل کردیا۔پاکستان کیا انڈیا میں بھی اس نے وہاں کے آرٹسٹوں کو بہت کچھ سکھایا اور آجکل کپل شرما شو بہت کامیاب ہے وہ سب عمر شریف کو ہی کاپی کرتے ہیں اور پاکستان میںتو اسٹیج کے فنکار سب ہی عمرشریف کو اپنا استاد مانتے ہیں میں جب وہی میں تھا تو وہاں قادر خان، گووندا، متھن چکروتی، اکشے کمار کون سا فنکار تھا جس نے معین اختر اور عمر شریف کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا وہ سب عمر شریف کو اپنا استاد مانتے تھے اور اپنی فلموں میں عمر شریف کے ڈراموں کے پورے پورے سین ڈال دیتے تھے اس کی فنکارانہ صلاحیتوں کا میں کیا ذکر کروں میں اس کے اندر کے انسان کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں عمر شریف اندر سے بہت ہی مذہبی انسان تھے ان کے اندر حضورۖ کو محبت اور بزرگان دین کی محبت بھری ہوئی تھی اور وہ جب بھی جس بھی ٹاپک پر بات کرتا تھا تو گھنٹوں بولتا جاتا تھا۔لوگوں کو وظیفے بھی بتاتا تھا وہ ایک بہترین انسان باپ شوہر تھا۔حالانکہ اس نے3شادیاں کیں لیکن کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی سب کو ان کے حقوق دیئے بیٹی حرا کے انتقال کے بعد عمر شریف اپنے آپ کو سنبھال نہ سکے دن بدن بیماریوں میں مبتلا ہوتے رہے اور بیٹی کا غم ان کو بھی لے گیا۔جس بیٹی کا انتقال ہوا تو عمر شریف امریکہ میں تھے انکو جب بیماری کا بتایا گیا انتقال کا نہیں بتایا گیا تو وہ اپنا ٹور کینسل کرکے پاکستان روانہ ہوگئے تھے۔عمرشریف نے ہر میدان میں چاہے وہ اسٹیج ڈرامہ فلم جہاں جہاں بھی کام کیا اپنا لوہا منوایا ،بے شمار ایوارڈ حاصل کئے۔وہ رائٹر،ڈائریکٹر، اداکارہ، شاعر، افسانہ نگار، میوزک ڈائریکٹر کون سا شعبہ تھا جہاں اس نے اپنے نقوش نہیں چھوڑے، آج سب اس کے بارے میں باتیں کررہے ہیں اس وقت اس کو دعاوئوں کی ضرورت ہے اس کی خواہش کے مطابق اسکو عبداللہ شاہ غازی کے احاطے میں دفن کیا جائیگا اور نماز جنازہ حضرت مولانا محمد بشیر فاروق قادری صاحب پڑھائیں گے اور عمرشریف کا جنازہ بھی پاکستان کے بڑے جنازوں میں شامل ہوگا۔اللہ تعالیٰ عمر شریف کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام فرمائے اور اس کی فیملی کو صبرجمیل عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭