میری عمر صرف سات سال تھی جب میں نے اپنی زندگی کے پہلے احتجاجی جلوس میں اپنے والد کی انگلی پکڑے شرکت کی ۔ جلوس کے دوران میرے والد مسلسل آنسو بہاتے جاتے، جس سے ان کی داڑھی تر ہوتی۔ یہ دسمبر 1963 کا آخری جمعتہ المبارک تھا جب گجرات کے شہریوں کو یہ علم ہوا کہ سری نگر کی مشہور درگاہ حضرت بل سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا موئے مبارک چوری ہو گیا ہے۔ جمعے کی نماز کے فورا بعد پورا شہر غصہ میں ابلتا ہوا سڑکوں پر تھا۔ یہ غصہ صرف گجرات شہر تک ہی محدود نہ تھا بلکہ پاکستان کے ہر قصبے، شہر یہاں تک کہ گلی محلوں میں لوگ سراپا احتجاج تھے۔ بھارت کے مسلمان جنہیں انگریز سے ہندو کی غلامی میں گئے ابھی صرف 16 سال ہی ہوئے تھے، اپنے مخصوص مادی مفادات کی وجہ سے خاموش رہے لیکن پوری ریاستِ جموں و کشمیر میں مظاہرے اس قدر شدت اختیار کر گئے کہ امن و امان قائم رکھنا مشکل ہو گیا۔ اس احتجاج کا اس قدر اثر ہوا کہ 31 دسمبر 1963 کو وزیر اعظم جواہر لال نہرو خود قومی ریڈیو پر آیا، واقعے کی مذمت کی اور موئے مبارک ڈھونڈنے کا وعدہ کیا۔ چند دن بعد یعنی 4 جنوری 1964 کو موئے مبارک بازیاب ہو گیا۔ دوسری دفعہ میں نے جس جلوس میں شرکت کی، بلکہ میں اس جلوس میں آگے چلنے والوں میں سے تھا، وہ 1969 میں ہمارے زمیندار کالج کے طلبہ نے اس دن کے اخبارات کی اس خبر پر نکالا تھاکہ ایک بہت بڑے انگریزی انسائیکلو پیڈیا نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جعلی تصویر شائع کر دی ہے۔ اس جلوس اور ہنگامہ آرائی کی وجہ سے تیرہ سال کی عمر میں مجھ پر پہلا مقدمہ درج ہوا تھا۔ پاکستانی قوم کو ہمیشہ سے یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں کہیں بھی کوئی گستاخ شخص، توہینِ رسالت کا مرتکب ہو تو یہ قوم مضطرب و بے چین ہو جاتی رہی ہے۔ دنیا بھر ہی نہیں بلکہ پاکستان کے سیکولر، لبرل بھی ہمیشہ یہ طعنے دیتے تھے کہ صرف پاکستانیوں کے ہی دل میں توہینِ رسالت پر انوکھا درد اٹھتا ہے۔ باقی ستاون اسلامی ممالک بھی تو اس دنیا میں ہیں، کوئی پاکستانیوں کی طرح دیوانہ نہیں ہو جاتا۔ جس کا عاشقانِ رسول ہمیشہ یہ جواب دیا کرتے تھے کہ یہ تو ہمارا اعزاز، ہمارا فخر ہے، ہمارا توشہ آخرت ہے کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر کٹ مرنے کے لئے تیار مسلمانوں کا ہمیشہ سے ہراول دستہ ثابت ہوتے ہیں۔یہ پاکستان کا مستقل اعزاز تھا۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی ایک تاریخ ہے۔ یہاں 1920 میں صرف ایک دفعہ ایسا ہوا ،ایک گستاخ ہندو نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں توہین آمیز کتاب رنگیلا رسول تحریر کی۔ اس کے مصنفین میں آریہ سماجی پنڈت چمپوپتی ایم اے یاکرشن پرشاد پرتاب کا نام لیا جاتا ہے۔ اصل مصنف مسلمانوں کے خوف سے کبھی منظرِ عام پر نہیں آیا، لیکن ایک شرپسند نے یہ کتاب شائع کر دی۔ کتاب پر اس قدر شدید ردعمل ہوا کہ اس کے پبلشر راج پال کو گرفتار کر لیا گیا لیکن پانچ سال بعد اپریل 1929 کو یہ بہانہ بنا کر رہا کر دیا گیا کہ ملک میں توہینِ مذہب کا کوئی قانون موجود نہیں ہے جس کے تحت سزا دی جاتی۔ راج پال کی رہائی کے بعد مسلمانوں کا غصہ اپنے عروج پر آ گیا۔ لاتعداد تو ایسے تھے جیسے اس کی تاک میں بیٹھے ہوں۔ صرف پانچ دنوں میں اس پر کئی حملے ہوئے اور آخر کار 6 اپریل 1929 کو غازی علم الدین شہید نے اسے خنجر کے وار کر کے جہنم واصل کر دیا۔ اس دن سے لے کر آج تک برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی غازی علم الدین سے ایک والہانہ وابستگی اور محبت قائم ہے۔ لاہور کے میانی صاحب میں اس کی قبر آج بھی مرجع خلائق ہے۔ وہ نوجوان اپنی زندگی میں ہی بڑے علمائے کرام، پیرانِ عظام اور عشاقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک مرجع محبت و عشق بن چکا تھا۔ لاہور کی تاریخ میں اس سے بڑا جنازہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ غازی علم الدین سے لوگوں کی محبت کا عالم یہ تھا کہ انگریز سرکار نے عوامی احتجاج کے خوف سے اسے 31 اکتوبر 1929 کو پھانسی دے کر میانوالی جیل میں ہی دفن کر دیا ۔ لیکن علامہ اقبال کی سربراہی میں ایک وفد گورنر پنجاب سے ملا اور اس کے جسدِ خاکی کو لاہور لا کر عزت و احترام سے دفن کرنے کا مطالبہ منظور کروایا۔ 14 نومبر 1929 کو دو ہفتے گزرنے کے بعد جب اس شہید کا حسدِ خاکی قبر سے نکالا گیا تو چہرے پر غسل کے پانی کے قطرے ایسے چمک رہے تھے جیسے ابھی وضو کیا ہو۔ دو دن بعد لاہور میں اس شہید کا جنازہ اس قدر بھر پور تھا جیسے پورا برصغیر امڈ آیا ہو۔ اس واقعے کو گزرے آج تقریبا ایک سو سال ہو چلے ہیں۔ برصغیر میں کبھی کسی کو یہ جرات نہیں ہوئی کہ وہ اس طرح براہِ راست کتاب لکھ کر یا مین سٹریم میڈیا میں آ کر سیدالانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے۔ یہ حرکتیں اور خباثتیں عموما یورپ میں ہوا کرتی تھیں لیکن اس پر بھی احتجاج کرنے والوں میں پیش پیش ہمیشہ پاکستان کے مسلمان ہوا کرتے تھے۔ پاکستان میں نکلنے والے جلسوں اور جلوسوں میں ہر کوئی ایک گلہ کرتا نظر آتا تھا کہ اگر اس دنیا میں بسنے والے ڈیڑھ ارب مسلمان گستاخ شخص کے ملک کا معاشی مقاطعہ کر دیں تو وہ ملک گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیگا۔ دنیا میں مسلمان سب سے بڑی صارفین کی منڈی ہے۔ معاشی مقاطعہ رسول اکرم ۖ کی مشرکینِ مکہ کے خلاف ابتدائی کارروائیوں میں سے ہے۔ جب آپ مدینہ پہنچے تو آپ نے یہ حکم دیا کہ ابوسفیان کے تجارتی قافلے کا راستہ روکا جائے۔ ان گستاخان کے خلاف اگر مسلم امہ ایک دفعہ ایسا کر لیتی تو وہ مغربی دنیا جو اپنی ہر پراڈکٹ کی کتاب دوسری زبانوں کے ساتھ ساتھ عربی زبان میں بھی شائع کرتی ہے، فورا اس لعنت پر قابو پا لیتی۔ یہودیوں نے ہولوکاسٹ کے خلاف جو قوانین منظور کروائے، وہ اس لئے کروائے کہ انہوں نے ان تمام ممالک کی معاشی قوت اپنے ہاتھ میں لے رکھی تھی اور انہیں اپنی قوت کا ادراک تھا۔ انکے ہاتھ میں صنعت گری (Production) کی قوت ہے جبکہ مسلمان کے ہاتھ میں استعمال کرنے (Consumer) کی قوت ہے، لیکن اس قوت کا آج تک امت نے کبھی بھر پور استعمال نہیں کیا۔ برصغیر پاک و ہند میں ایک سو سال بعد ایسا ہوا ہے کہ کسی ہندو میں یہ جرات ہوئی کہ برسرعام ٹیلی ویژن پر اس گستاخی کا ارتکاب کرے اور وہ بھی حکومتی پارٹی کی ترجمان نوپورشرما۔ اس خاتون نے 27 مئی 2022 کو ایک ٹیلی ویژن پروگرام پر یہ گستاخی کی اور میرے لئے شرمناک حیرت کی بات یہ تھی کہ پاکستان کی وہ سرزمین جس پر ہم یہ فخر کیا کرتے تھے کہ یہ دنیا کے کسی خطے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر سب سے پہلے بے پناہ احتجاج کرتی ہے، لیکن اس دفعہ یہاں ایسی خاموشی طاری رہی کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ عشاقِ رسول کا دیس ہے۔ چند علمائے کرام نے اپنے پہلے سے شیڈول جلسوں میں مذمت والی دھواں دار تقریر کر دی اور پھر چادر تان کر سو گئے۔ لیکن وہ عرب دنیا جسے ہم لوگ خاموشی کا طعنہ دیا کرتے تھے، اس دفعہ وہاں سے عشقِ رسول کی شمع روشن ہوئی۔ سلطنت عمان کے مفتی اعظم احمد بن سلمان الخلیلی نے 5 جون کو فتوی جاری کیا کہ بھارت کی تمام مصنوعات کا فوری طور پر بائیکاٹ کیا جائے۔ ایک لہر اٹھی۔ پوری عرب مسلم دنیا میں لوگوں نے دکانوں سے بھارتی مصنوعات اٹھانا شروع کر دیں۔ قطر اور کویت کے حکمرانوں نے سفیروں کو بلایا اور غصے سے بھرے مراسلے تھما دیئے۔ ہم آج بھی خاموش ہیں۔ آٹھ دن بعد وزیراعظم اور صدر کا مذمتی بیان آتا ہے اور علمائے کرام اور عاشقانِ رسول ہونے کے دعویدار، شاید وزارتوں کے گورکھ دھندوں میں مصروف ہیں یا پھر ضمنی الیکشن کی تیاریوں میں گم ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔
٭٭٭