میرے ایک دوست کو اچانک بہت ساری پریشانیاں اٹھانی پڑگئیں،گذشتہ ہفتے اُنہیں اُن کے والد کا ایک فون موصول ہوا ، جس میں اُنہوں نے فرمایا کہ وہ حوالات میں بند ہیں، استفسار کرنے پر اُن کے والد نے بتایا کہ تنازع کچھ ویکسی نیشن لگوانے کے بارے میں تھا، ہمارے دوست کے والد اُن وقیانوسوں ، توہم پرستوں میں سے ہیں جو دنیا میں ہر آنے والی تبدیلی کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اگر کسی کے سر کا بال ذرا لمبا ہوا تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُس کی نوکری چھوٹ گئی ہے اور وہ اُس کے بارے میں کھوج لگانا شروع کردیتے ہیں کہ آخر اُس کا ذریعہ معاش کیا ہے ؟
بہرکیف اُن کی گرفتاری اِس طرح عمل میں آئی کہ وہ مین ہٹن کے ایک ریسٹورنٹ میں جاکر لنچ کر رہے تھے ، اُنہوں نے لنچ کا آرڈر دیا اور رقم کی ادائیگی کی، لنچ آیا اور وہ ایک کرسی ٹیبل پر براجمان ہوگئے لیکن اِسی کے ساتھ منیجر نازل ہوگیا ، اور اُن سے استفسار کیا کہ کیا اُنہوں نے کرونا کا ویکسین لگوایا ہے ، اگر ہاں تو وہ اُس کا ثبوت پیش کریں اور اگر نہیں تو یہاں سے اپنی تشریف آوری کا ٹوکرا واپس لے جائیں، ہمارے دوست کے والد نے جواب دیا کہ اُنہوں نے نہ ہی ویکسین لگوائی ہے اور نہ ہی لگوائیں گے اور وہ ریسٹورنٹ سے نکل بھی نہیں سکتے کیونکہ اُنہوں نے بیٹھ کر لنچ کرنے کی رقم کی ادائیگی کردی ہے اگر رقم واپس کردی جائے تو وہ نکل سکتے ہیں، ریسٹورنٹ کے منیجر نے جواب دیا کہ یہ کوئی لنگر خانہ نہیں جوہر ایرے غیرے کو مفت کھانا تقسیم کرے، وہ فوری طور پر ریسٹورنٹ سے نکل جائیں ورنہ پولیس بلوا لی جائیگی اور لوگ اُن کا تماشا دیکھیں گے، میرے دوست کے والد نے ریسٹورنٹ کے منیجر کی کچھ بھی نہ سنی اور اپنا کھانا کھاتے رہے، ریسٹورنٹ کے منیجر نے جب دیکھا کہ وہ ٹس سے مس ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں تو اُس نے دھکم دھکے کی کوشش کی، میرے دوست کے والد نے اُسے ایک بھر پور طمانچہ رسید کردیا، اور ایک ہنگامہ بپا ہوگیا۔ پولیس پہنچ گئی اور ریسٹورنٹ کے مالک نے پولیس کو سارا ماجرا سنا دیا اور میرے دوست کے والد کو اُسے طمانچہ مارنے کی پاداش میں گرفتار کرنے کی استدعا کی، پولیس نے میرے دوست کے والد سے واقعہ کی تفتیش شروع کردی اور چند سوالات پوچھنے کے بعد اُنہیں بتایا کہ وہ دوجرائم کے مرتکب ہوئے ہیں، اول تو یہ کہ وہ کرونا ویکسین نہ لگوانے کے باوجود زبردستی ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر کھانے کی کوشش کی ہے، اور دوئم اُنہوں نے ریسٹورنٹ کے منیجر کو طمانچہ مارا ہے، ایک عمر رسیدہ شخص سے اِس طرح کی حرکت کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے،میرے دوست کے والد نے جواب دیا کہ وہ نسلی امتیاز کے نشانہ بنے ہیں ، اُنہوں نے رقم کی ادائیگی کردی تھی ، اُس سے قبل اُنہیں کسی چیز کی اطلاع نہیں دی گئی تھی، اور جب وہ کھانا کھانے لگے تو منیجر نے بلا جواز اُن کا نوالہ چھین لیا اور کھانا کھانے سے منع کردیا، اگر وہ گورے ہوتے تو وہ ایسا ہرگز نہیں کرتا، پولیس نے اُن سے اُنکی جائے پیدائش کے بارے میں پوچھاتو اُنہوں نے افغانستان پاکستان کہہ کر جواب دیا، پولیس کچھ مغالطے میں پڑگئی اور اُس نے دوبارہ وہی سوال کیا اور اُنہوں نے وہی جواب دیا، پولیس نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان دو ملک ہیں اور آپ اِن ہی میں سے کسی ایک ملک میں پیدا ہوئے ہونگے،میرے دوست کے والد نے جواب دیا کہ اب وہ دونوں ملک ایک ہوگئے ہیں،پولیس نے کہا کہ آپ کا ذہنی توازن کچھ بگڑا ہوا معلوم ہوتا ہے، آپ نے کوئی نشہ وغیرہ ، بھنگ یاہیشش کا استعمال تو نہیں کیا ہے، عموما” افغانستان میں بھنگ اور ہیشش وافر مقدار میں دستیاب ہوتا ہے، کیا یہ عادات آپ نے وہیں سے سیکھیں ہیں۔ میرے دوست کے والد کچھ ناراض سے ہوگئے اور جواب دیا کہ ” وہ لوگ اُن کے جذبات کو مجروح کر رہے ہیں ” پولیس والے نے اُس پر زور کا قہقہہ لگایا اور کہا کہ” کون سے جذبات کو ہم نے مجروح کیا
ہے؟ میں خود لائن آف ڈیوٹی میں افغانستان میں دو سال رہ چکا ہوں، کابل کی سڑکوں پر سرے عام بھنگ فروخت ہوتی ہے، امریکی بھی اِس کا استعمال کیا کرتے تھے”
بہر کیف پولیس میرے دوست کے والد کو گرفتار کرکے لے گئی، پولیس اسٹیشن پر شناخت کے بعد یہ بات افشا ہوئی کہ وہ اِس سے قبل بھی ریسٹورنٹ کے منیجر یا مالک کی پٹائی کر چکے تھے، ایک مرتبہ اُنہوں نے میک ڈونلڈکے ایک منیجر کی ناک پر گھونسا مارا تھا جسکے عملے نے اُن کی سینڈوچ میں سور کے تیل کو ملا دیا تھا، دوسری مرتبہ ایک کیشئر اُنہیں دس ڈالر کم واپس کر رہی تھی اور اصرار کر رہی تھی کہ اُن کی جامعہ تلاشی لی جائے بعد ازاں ریسٹورنٹ کا مالک سامنے آگیا تھا اور اُن کی اُس سے ہاتھا پائی شروع ہوگئی تھی ، وہ اپنے غصے کو قابو میں نہ رکھ سکے اور اُسکی بھی دھلائی کردی تھی، وہ اُس ریسٹورنٹ کے سامنے دھرنا دے کر بھی بیٹھ گئے تھے کہ جب تک اُن کا دس ڈالر واپس نہیں کیا جاتا وہ وہاں سے نہیں اُٹھیں گے، کچھ پاکستانی جو وہاں موجود تھے اُنہیں مشورہ دیا کہ وہ گھر واپس چلے جائیں اور دس ڈالر کو بھول جائیں، پولیس آنے والی ہے اور اُنہیں گرفتار کر سکتی ہے۔تازہ ترین صورتحال میں ریسٹورنٹ کے منیجر نے اپنی شکایت واپس لے لی ہے اور اُنکے لنچ کی رقم کو بھی واپس کرنے کا عندیہ دیا ہے، منیجر کا کہنا ہے کہ میرے دوست کے والد تنہا شخص نہیں جو اُس سے ویکسین کے ثبوت کو پیش کرنے کی بحث پر اُسکی پٹائی کر چکے ہیں بلکہ اُنکے جیسے اشخاص اِس جہاں میں اور بھی ہیں۔
٭٭٭