فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
7

فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سسر ہیں۔ اسلام لانے کے بعد آپ نے اپنی ساری زندگی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں اور اسلام کی ترویج واشاعت میں گزاری۔ آپ کی کنیت ” ابو صفیں” اور لقب ”فاروق اعظم” ہے۔ آپ کی والدہ کا نام ”عنتمہ” جو ہشام بن مغیرہ کی بیٹی ہیں۔ اشراف قریش میں سے آپ کا شمار ہوتا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کا سجرہ نسب آٹھویں پشت میں جا ملتا ہے۔ آپ واقعہ فیل کے تیرہ سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور نبوت کے چھٹے سال مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے آپ کی عظمت شان کو خراج عقیدت یوں پیش کیا ہے!
وہ عمر جس کے اعداء پہ شیدا سقر
اس خدا دوست حضرت پہ لاکھوں سلام
فاروق حق و باطل امام الھدیٰ
تیغ مسلول شدت پہ لاکھوں سلام
آپ رضی اللہ عنہ کی وہ ہستی ہے کہ آپ کے آغوش اسلام میں آتے ہی تاریخ اسلام کا نیا ور شروع ہو گیا اس وقت تک اگرچہ چالیس یا پچاس افراد مسلمان ہو چکے تھے اور عرب کے مشہور بہادر حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسلام قبول کر لیا ہوا تھا مگر پھر مسلمان اپنے فرائض منصبی علانیہ نہیں ادا کرسکتے تھے اور کعبہ شریف میں نماز ادا کرنا تو بالکل یہ ممکن نہیں تھا مگر آپ کے اسلام لاتے ہی ایک انقلاب آگیا اور دفعتہ یہ حالات بلد گئی کہ آپ نے برملا اپنے اسلام کا اعلان کردیا۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ کعبہ شریف میں جا کر نماز پڑھائی گئی۔ چنانچہ مشہور صحابی عبداللہ بن معسود فرمایا کرتے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو وہ قریش سے لڑے یہاں تک کہ انہوں نے حرم کعبہ میں نماز پڑھی اور ہم لوگوں نے بھی ان کے ساتھ نماز ادا کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سابقین اولین میں سے ہیں اور خلفاء راشدین میں بڑی عظیم الشان خصوصیات کے جامع ہیں۔ بیعت الرضوان میں شامل ہوئے اور عشرہ مبشرہ یعنی ان دن خوش نصیب صحابہ کرام علیھم الرضوان میں آپ کا شمار ہے جن کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ساتھ جنتی ہونے کی بشارت دی۔ احادیث آپ سے مروی ہیں اور آپ کے فتاویٰ اور شرعی فیصلوں کا ایک ایسا عظیم مجموعہ ہے جو فقہ اسلامی کا نہایت ہی قیمتی ذخیرہ اور بہترین عملی سرمایہ ہے۔ آپ کے فضائل و مناقب کا کیا کہنا؟ قرآن کریم کی بہت سی آیات بینات آپ کے فضائل و کمالات کے بارے میں نازل ہوئیں یہاں تک کہ بعض مورخین کا بیان ہے کہ قرآن پاک کی تقریباً بیس آیات طبیات ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے اور خواہش کے مطابق نازل ہوئی تھیں چنانچہ آپ کا ایک مشہور لقب ”الموافق رایہ للوحی و الکتاب” بھی ہے۔ یعنی آپ کی رائے کے مطابق کبھی کبھی قرآن پاک کی وحی نازل ہوا کرتی تھی اور احادیث مبارکہ میں تو آپ کے فضائل اس کثرت سے وارد ہوئے ہیں کہ اگر ان کو جمع کیا جائے تو بہت سی ضخیم کتابیں آپ کے فضائل پر مشتمل ہو سکتی ہیں۔ آپ کے فضائل کی چند احادیث پیش خدمت ہیں جناب امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب بیان فرماتے ہوئے حضور سید المرسلین ، خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے، ترجمہ اگر کوئی میرے بعد نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتے یعنی چونکہ میں خاتم النبین ہوں اور میرے بعد کسی کا نبی ہونا ممکن ہوتا تو وہ عمر ہوتے ۔ بس میرے بعد نبی کا آنا ممکن ہی نہیں لہٰذا عمر نبی نہیں، باقی عمر کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے آ بھی مواجہ شریف کے سامنے کھڑے ہو کر جب انسان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں یوں سلام عقیدت پیش کرے کہ اے وہ ذات جس کے بارے میں سید المرسلین خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہوا ہے کہ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے آپ پر سلام عقیدت نازل ہو۔ اس وقت جسم کا رونگٹا رونگٹا عظمت فاروق کے تصور سے کانپ اٹھتا ہے۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا ہے ”اللہ تعالیٰ نے حق کو حضرت عمر کی زبان پر رکھ دیا ہے۔” مطلب یہ کہ عمر رضی اللہ عنہ جب بھی جو بھی بولتے ہیں حق ہی بولتے ہیں اور ان کی زبان صداقت نشان پر کبھی باطل کا گزر ہی نہیں ہو سکتا۔ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر پکارا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام انسانوں میں سب سے بہترین ،جواب میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا سورج کسی ایسے پر طلوع نہیں ہوا جو عمر سے بہتر، یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے بارے میں فرمایا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے، ” اس طرح ہم اس کو کچھ بعید نہیں سمجھتے تھے کہ عمر کی زبان پر ”سکینہ” بولتا ہے، الحمد للہ ! ہم اہل سنت و جماعت نہ ناصبی ہیں نہ رافضی ہیں اور نہ ہی خارجی ۔ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سب غلاموں کے غلام ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے درجات بلند فرمائے آپ کے فیض سے وافر حصہ عطا فرمائے آمین۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here