امام مالک رحم اللہ علیہ ہمیشہ کی طرح مسجد نبوی میں بیٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بیان کر رہے تھے اور ان کے اردگرد موجود طلبا ان سے تعلیم حاصل کررہے تھے کہ اردگرد کی گلیوں میں منادی کرنے والے نے آواز لگائی: لوگو! آئو دیکھو مدینہ کی گلیوں میں ایک بڑا ہاتھی آیا ہے۔
اہلِ مدینہ نے اس سے پہلے ہاتھی نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی ہاتھی مدینہ منورہ کا مقامی جانور تھا۔چنانچہ درس میں شامل تمام طلبا ہاتھی کو دیکھنے کے لیے دوڑ پڑے اور امام مالک کو چھوڑ کر چلے گئے سوائے ایک شاگرد یحیی کے۔
امام مالک نے اس سے کہا:
تم ان کے ساتھ باہر کیوں نہیں گئے؟
کیا تم نے پہلے ہاتھی دیکھا ہے؟
کیا تمھارے علاقے میں ہاتھی ہوتا ہے؟
یحیی نے کہا: میں نے مشرق کا سفر ہاتھی کو دیکھنے کے لیے نہیں بلکہ مالک سے علم حاصل کرنے کے لیے کیا ہے۔
اگر ہم اس واقعہ پر غور کریں…تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس مجلس کے حاضرین میں سے صرف ایک شخص ہی جانتا تھا کہ وہ وہاں کیوں آیا اور اس کا مقصد کیا تھا۔
تو وہ اپنے مقصد کو پس پشت ڈال کر دیگر کاموں میں مشغول نہیں ہوااور نہ ہی اس نے اپنی توانائیاں دائیں بائیں ضائع کیں، باقیوں کی طرح، وہ باہر جا کر ہاتھی دیکھتے تو کیا ہوجاتا؟ وہ طلبا جو ہاتھی دیکھنے چلے گئے ان کے درمیان اور یحییٰ کے درمیان بڑا فرق دیکھیں…
تاریخ نے یحییٰ کا نام امام یحییٰ بن یحییٰ اللیثی رحم اللہ علیہ کے طور پر ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیا اور دیگر حوالوں کے علاوہ امام مالک رحم اللہ علیہ کی سند سے الموطا کے پہلے مستند راوی کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔
جہاں تک دوسرے طلبا جو ہاتھی کا تماشا دیکھنے نکل گئے تھے، تاریخ نے ان کا ذکر ہم سے نہیں کیا، ہمارے زمانے میں بھی، ہاتھی کا تماشا دہرایا جاتا ہے لیکن مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے خاص طور پر رمضان میں تو ہر جا ہاتھی اور تماشائیوں کا ہجوم ہوتا ہے۔
رمضان میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ایک قسم نے اپنا مقصد طے کر لیا ہوتا ہے،وہ خوب جانتے ہیں کہ وہ رمضان سے کیا چاہتے ہیںاور وہ کیا ثمر حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں،ایک اور قسم ہے جس کی طرف مختلف قسم کے ہاتھی آ نکلتے ہیں اور ہاتھیوں کے تماشے میں مگن وہ اپنے مقصد کی طرف سے غافل ہے اور حد سے زیادہ غفلت میں ہے،کوشش کریں کہ ماہ رمضان میں ہاتھیوں کے تماشے( بیہودہ سوشل میڈیا Reels , سحر و افطار ٹرانسمیشن ) کی کانوں میں پڑنے والی آواز سے بچیں،ورنہ یہ تماشا آپ سے سال کا بہترین مہینہ چھین لے گا۔
٭٭٭