دوحہ میں قطر کی میزبانی اور ترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے طویل مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان نے فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں نے ایک دوسرے کی خود مختاری کے احترام اور اکتوبر کے آخر میں مذاکرات کے نئے مرحلے تک رابطہ برقرار رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ یہ اشتعال انگیز واقعات اور سرحدی جھڑپوں کے سلسلے کے بعد پہلا ایسا لمحہ ہے جب دونوں جانب سے ایک نظم شدہ طریق پر کشیدگی کو روکنے کا فیصلہ سامنے آیا۔ یہ پیش رفت اس پس منظر میں ہوئی کہ پکتیکا کے اندر حافظ گل بہادر گروپ کے نیٹ ورک پر پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کارروائی پر مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ تھا۔پاکستانی وفد کی قیادت وزیرِ دفاع خواجہ آصف کر رہے تھے،وفد نے واضح کر دیا کہ پاکستان جارحیت کا خواہش مند نہیں لیکن سرحد پار سے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں اور افغانستان کی سرزمین سے ہونے والے حملوں کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی تناظر میں پکتیکا میں کی جانے والی کارروائی کو پاکستانی ریاست نے ناگزیر اور دفاعِ وطن کے اصول کے تحت جائز قرار دیا۔ سرکاری توضیح کے مطابق یہ کارروائی نہ صرف ہدف پر مرکوز تھی بلکہ اس میں شہری آبادی کو کسی بھی نوعیت کے نقصان سے محفوظ رکھا گیا اور جس گروہ کے عناصر مارے گئے، ان کی شناخت دہشت گرد کے طور پر موجود تھی۔ اسی لیے کرکٹ ٹیم پر حملے جیسی کہانیوں کو پاکستان نے پراپیگنڈا قرار دیتے ہوئے افغان عبوری حکومت کی جانب سے ایسے بیانیوں کی سرپرستی کو تشویش ناک کہا۔ اس صورت حال میں اصل سوال یہ نہیں کہ جنگ بندی ہو گئی بلکہ یہ ہے کہ کیا افغان سرزمین سے دہشت گردی رکنے کے قابلِ تصدیق انتظامات بھی کیے جا سکیں گے یا نہیں۔ افغانستان کی عبوری حکومت نے عالمی برادری سے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ اس کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ لیکن حافظ گل بہادر گروپ اور دیگر نیٹ ورکس کی نقل و حرکت، مالیات، تربیت اور حملہ کرنے کی صلاحیت، اسی زمین پر قائم رہنے سے پاکستان کے لیے فوری خطرہ بنی ہوئی ہے۔ اس لیے دوحہ کی یہ تازہ پیش رفت محض سفارتی وقفہ ہے، حتمی حل نہیں۔ تجزیاتی طور پر دیکھا جائے تو دونوں ممالک کے تعلقات محض سرحدی مسئلہ نہیں بلکہ ایک داخلی عدمِ توازن کا اور خطے کے سٹرٹیجک دباو کا عکس بھی ہیں۔ کابل کے حکمران ایک طرف داخلی جواز اور مذہبی اقتدار کے بیانیے میں جکڑے ہوئے ہیں اور دوسری طرف بیرونی دنیا کے ساتھ ایسے روابط کے محتاج بھی ہیں جو معیشت کو سانس دیتے رہیں۔ یہی تضاد انہیں کسی بھی سخت اقدام سے روکے رکھتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے اندر دفاعی، سفارتی اور معاشی دباو ہے کہ دہشت گردی کے خطرے کو فوری طور پر رفع کرنا قومی سلامتی کی پہلی شرط ہے، چاہے اس کے لیے سرحد پار کارروائی ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ یہی وہ تناو ہے جس کی وجہ سے وقتی جنگ بندی کو کامیاب کرنے کے لیے صرف وعدے کافی نہیں رہتے، قابلِ تصدیق اقدامات لازمی ہوتے ہیں۔ پاکستان کا اصولی موقف ابتدا سے دو نکتوں پر قائم ہے۔ اول، کسی دوسرے ملک کی خودمختاری مجروح کیے بغیر اپنے دفاع کا حق برقرار رکھا جائے گا۔ دوم، افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف ہونے والی مسلح سرگرمیوں کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ حالیہ کارروائیوں اور مذاکراتی لہجے دونوں میں یہی دوہرا اصول جھلکتا ہے۔ پاکستان نے نہ صرف یہ واضح کیا کہ اسے جنگ نہیں امن چاہیے بلکہ یہ بھی کہ امن کی شرط افغانستان کی ذمہ داری ہے ۔ دہشت گردی پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ کسی گروہ کو پراکسی کی حیثیت دے کر محفوظ پناہ گاہ مہیا کرنا، افغانستان کے اپنے سیاسی وزن کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہو گا۔ اس تناظر میں یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ خطے میں ایک کمزور، انتشار زدہ اور غیر قابلِ بھروسہ افغانستان صرف سکیورٹی ہی نہیں بلکہ معیشت کا بحران بھی ہے۔ وسطی ایشیا تک راہداری، توانائی کے منصوبے، تجارت کی روانی اور علاقائی باہمی انحصار، سب اسی بات پر کھڑے ہیں کہ افغانستان میں کم از کم اتنی سطح کا استحکام موجود ہو کہ راستے کھلیں اور سرحدیں صرف خطرے کی سمت سے نہ دیکھی جائیں۔ چین، ایران، وسطی ایشیا اور خلیجی معیشتوں کے بیچ پاکستان کا جغرافیہ اسی وقت اپنی افادیت دکھاتا ہے جب کابل میں امن کم از کم نفسیاتی حقیقت بن چکا ہو۔پر امنِ افغانستان صرف اخلاقی یا انسانی ضرورت نہیں، علاقے کی معیشت کی شہ رگ ہے۔ دوحہ کی جنگ بندی ایک ناگزیر اقدام ہے مگر اصل امتحان اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔ جب تک افغان عبوری حکومت عالمی وعدوں کو عمل میں نہ بدلے، دہشت گرد نیٹ ورکس کی پناہ گاہیں ختم نہ ہوں، اور بیانیاتی جنگ کی جگہ عملی تعاون نہ لے، تب تک ہر جنگ بندی عارضی اور ہر تناو کم وقتکا وقفہ رہے گا۔ پھر بھی بات چیت کا قائم رہنا، فالو اپ اجلاسوں کا طے پانا اور ریاستی سطح پر کشیدگی کم کرنے کا اعلان، خطے میں اس سمت کی طرف اشارہ ہے جس کے بغیر نہ امن ممکن ہے نہ ترقی۔ ایک پرامن افغانستان، پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے خطے کی معیشت کی بنیادی شرط ہے۔ جنگ کی قیمت اور امن کی قدر دونوں کا حساب صرف سفارت کاری نہیں کرتی، تاریخ بھی اس سے سود و زیاں کا حساب لیتی ہے۔
٭٭٭











