بیس سال تک ہر روز تین سو ملین ڈالرز امریکہ اور اسکے اتحادی افغان جنگ پر خرچ کرتے رہے تقریباً دو ٹریلین ڈالرز سے زائد اس جنگ میں جھونک کر چار ہزار سے زائد امریکی فوجی اور لاکھوں افغان مروا کر دنیا میں افراتفری پھیلا کر دنیا کو مزید معاشی مشکلات سے دو چار کر کے آخری امریکی فوجی کابل کے کرزئی ایئرپورٹ سے تین بجکر اکاون منٹ پر اپنے سی سترہ طیارے سے اڑ گیا۔ انخلا کے انیس دنوں میں ایک لاکھ بتیس ہزار امریکی اور اسکے اتحادی نکال کر آخری امریکی فوجی میجر جنرل کرس نے ایسی جنگ کے خاتمہ پر آخری پرواز بھری کہ جس سے افغانستان میں خدمات انجام دینے والے امریکی فوجیوں میں سے ہر روز بقول صدر جو بائیڈن اٹھارہ فوجی خودکشی کر جاتے ہیں۔ کتنے ہیں جو نفسیاتی مریض بن گئے ہیں۔ انکے لوحقین پر کیا گرزرتی ہوگی۔ کتنے بچے باپ کی شفقت سے محروم ہو گئے۔ نجانے اس آخری فوجی کا انجام کیا ہوگا ۔جس مقصد کے لیے ان فوجیوں نے اپنی جانیں دیں ،کیا وہ پورا ہو گیا؟ کیا عالمی سیاست کی بھینٹ چڑھے ہوئے یہ فوجی ان پالیسی سازوں سے سوال کریں گے جنہوں نے انہیں جیتے جی سولی پر چڑھا دیا؟ کیا افغان جنگ اتنی ہی ضروری تھی کہ ٹالی نہیں جا سکتی تھی؟
صدر بش جس نے اس جنگ کی ابتداء کی وہ تو اپنی ہزاروں ایکڑ کی رینچ میں بیٹھا رنگوں سے کھیل رہا ہے، پینٹنگ کرتاہے۔ ابھی حال ہی میں اس کی اپنے ہاتھوں سے بنائی گئی مختلف لوگوں کے چہروں کی پینٹنگ سے مزین کتاب بھی منظر عام پر آئی ہے۔ وہ خوش گپیوں میں وقت گزار رہا ہے، پر جو قیامت ان غریب نوجوان فوجیوں کے گھروں میں گزرے گی جو ابھی انخلا کے دوران ہلاک ہوئے، افغانوں کو تو چھوڑیں وہ تو امریکیوں کی نظر میں گاجر مولی کی طرح ہی سمجھے جاتے ہیں کہ جن کی فصل ہی کٹنے کے لیے پکتی ہے۔ وہ یا تو شہید یا پھر غازی۔ جنہیں امریکی کامیڈین ستر حوروں کے لالچی قرار دیتے ہیں۔ جنکو قبر کے کتبے بھی میسر نہیں ہوتے۔
افغانستان سے نکال کر لے جانیوالے ایک لاکھ بائیس ہزار لوگوں میں سے ایک لاکھ افغانی جو لٹے پٹے افغانستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے صلاحیت رکھتے تھے وہ برین ڈرین کر لیے گئے ۔ ان سمجھدار حساس لوگوں کی حالت زار بھی ان فوجیوں سے کم نہیں ہو گی جو روزانہ کی بنیاد پر خودکشی کرتے ہیں۔ ایک بہتر مستقبل کی تلاش میں امریکہ یا کہیں اور جا کر بس تو ضرور جائیں گے مگر وہ اور انکے بچے ایک دم پہنچ جانیوالے صدمے سے کیا اتنی جلدی سنبھل پائیں گے اور کیا پیچھے افغانستان میں انکے باقی بچ رہنے والے عزیز رشتہ دار انکی کمی محسوس نہیں کریں گے۔ پاکستان نے انخلا میں مدد کی پاکستان نے آخر میں نکلنے والے کئی ایک امریکی فوجیوں کی مہمان نوازی کرنے کے علاوہ کئی ملکوں کے سفارتی عملے کو بھی کابل سے نکالا۔ جس پر دنیا پاکستان کی ان کاوشوں کو سراہتی ہے۔ جی بات ہو رہی تھی اس آخری فوجی کی جو آج دوحہ کے آرمی میس میں جام سامنے رکھے جیت کا جشن منا رہا ہوگا۔ پر کل شاید ان اٹھارہ فوجیوں میں شامل ہو جو روزانہ کی بنیاد پر خود کشتیاں کرتے ہیں۔