قارئین وطن ! مجھ کو کیا معلوم تھا کہ میرے ربِ باری نے امریکہ کی سر زمین کو میرا دوسرا گھر بنانا تھا اور میرا رزق اِس مٹی پر لکھا تھا۔ پھر یہی سنتے آئے ہیں کہ رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں میری بیگم سردار اسد اللہ کی والدہ ایسٹ افریقہ کے ملک کینیا سے آئی تھی اور میں لاہور سے آیا تھا۔ نیو یارک میں ہم رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ نہ گرین کارڈ اْس کے پاس تھا نہ میرے پاس۔ خالصتاً لو میرج تھی نہ اْس نے سوچا تھا نہ میں نے سوچا تھا۔ تقدیر کے معاملے تھے اِس زمین پر جب اترا تو سوائے اپنے رب کے کسی کو نہیں جانتا تھا۔ پھر ایک دوست بنا پھر دوسرا بنا پھر دوستوں کا ایک ہجوم بنا۔ سیاست گھٹی میں تھی اور جب محسوس کیا کہ یہاں پاکستان مخالف سرگرمیاں سر اٹھائے ہوئے ہیں اور پیپلز پآرٹی ”ایواکس طیاروں کی بھر پور مخالفت کر رہے تھے جو پاکستان کیلئے وقت کی ضرورت تھے۔ قائد اعظم کا جھنڈا تھاما اور مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور تنظیم کو واچ ڈاگ کی طرز پر قائم کیا اور کسی ستائیش اور تمنا کے بغیر میرے سانس میں صرف اور صرف پاکستان کی سانس تھی بس یہ سمجھئے کہ بقول کسی شاعر کے!
گو ہم رہے راہیں ستم روز گار
لیکن وطن کی یاد سے غافل نہیں رہے
قارئین وطن! یہ ساری تمہید باندھنے کی ضرورت اس وجہ سے محسوس ہوئی کہ لاہور میں بیٹھے کچھ صحافتی بدمعاش جو نواز اور شہباز کے پے رول پر ہیں ہم کو پاکستانی مانتے ہی نہیں جبکہ اْن کا لفافائی محسن اور اْس کا چھوٹا شہباز شریف خود میری صدارت میں چار بڑے بڑے جلسے کر چکا ہے اس وقت میں پاکستانی تھا اب میں نہیں ہوں کیونکہ میں نواز وشہباز کا سخت سیاسی مخالف ہوں۔ یہ بلیک میلر ایک سابق سرکاری ملازم جو اب شہباز شریف کے گھر کا ذاتی ملازم ہے کی ایماء پر اس شخص کو تڑی لگا رہے ہیں جس کو سردار نصراللہ کہتے ہیں۔ جس کی ہڈیاں پاکستان کی بھٹی میں ڈھلی ہے اِْن بے وقوفوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ تم اجرتی لکھاری ہو اور میں تو دل سے تحریر کرتا ہوں۔ اپنے احساسات کو میرا بڑا ہی پیارا دوست جو مجھ سے عمر میں کئی سال چھوٹا ہے لیکن کئی درجن کتابوں کاْمصنف ہونے کی وجہ سے بڑے بھائی اور استاد کا درجہْ رکھتا ہے تنویر قیصر شاہد مجھ کو ہمیشہ یہی کہتا ہے جب بھی میں ان سے ان لوگوں کی گندگی کا ذکر کرتا ہوں وہ مجھ کو شیخ سعدی کا فارسی کا ایک شعر سناتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ” کتے بھونکتے رہتے ہیں اور قافلے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں ”۔
سردار تم کب سے اِن لوگوں کی طرف دھیان دینا شروع ہو گئے ہو تم پاکستانی ہو اور ہم کو فخر ہے کہ تم پاکستان کی نظریاتی اساس کے سپاہی ہو۔
قارئین وطن ! آج میں کالم نگاروں کے خلیفہ صاحب ”ہارون رشید” پر لکھنا چاہتا ہوں کہ جس انداز سے وہ اپنے مقابل شو میں ایسے ایکٹ کرتے ہیں جیسے وہ عمران خان اور اس کی ایڈمینیسٹریشن کو چلا رہے ہیں۔ ہارون رشید صاحب کے بارے یہ تاثر ہے لکھنے پڑھنے والے حلقوں میں کہ لوگ اجرتی قاتل ہوتے ہیں یہ اجرتی لکھاری ہیں۔ ایسی مبالغہ آرائی کرتے ہیں کہ امریکی مصنف ”باب وڈ ورتھ” بھی نہیں کرتا۔ عمران خان اور اس کی کابینہ تو اپنی جگہ لیکن ان کو فن آتا ہے کہ کیسے اپنے من پسند سرکاری ملازموں کی ترقی اور کام نہ کرنیوالے کو کیسے معزول کروانا ہے۔ میں جب اس کا شو دیکھتا ہوں تو مجھ کو لگتا ہے کہ یہ ہارون رشید تو وہی ہے جو جرنل کیانی کے دور میں یہی تاثر دیا کرتا تھا کہ وہ سات لاکھ فوج کو اِس کے اشارے پر آگے پیچھے کرتا تھا بلکہ باتھ روم بھی وہ اس کی مرضی سے جاتا تھا۔ پتا نہیں اس کو پنجاب کے چیف منسٹر بزدار کیخلاف کیا بغض ہے؟ ایسے اس کے پیچھے پڑا ہو ا ہے جیسے اس نے ان کے کھوتے کو چھپا لیا ہے۔ اس وقت ہمیں ایک اچھے صحافی کلچر کی ضرورت ہے جو مبالغہ آرائی کم کرے اور عوام کی رہنمائی زیادہ کرے۔ عمران خان کی حکومت کی جب چھٹی ہونی ہے ہو جائے گی، ہارون صاحب آپ کی وجہ سے نہیں ہوگی۔ شکر ہے جنرل کیانی اپنے عہدے پر براجمان نہیں، نہیں تو پتا نہی کب اس کو چلتا کر دیتے ہارون صاحب آپ۔ حالانکہ یہی عمران خان ہے اور یہی ہارون صاحب کے دونوں کے درمیان سوئی نہیں گزرتی تھی لیکن حکومت کے تقاضے اور ہوتے ہیں جہاں دوستیاں نہیں دیکھی جاتی اور عمران ان کی بیجا مداخلت سے بہت تنگ تھا اس لئے ان کو پیچھے کرنا ضروری تھا جو اب ان سے برداشت نہیں ہو رہا اور موصوف کوئی دم نہیں ٹھہرتے عمراْن کی بچپن سے لے کر وزیر اعظم بننے تک کی کمزوریاں جتاتے رہتے ہیں حالانکہ میں سمجھتا ہوں نیند کے سرور میں مست رہنے والا ایسی اوچھی حرکتیں نہیں کرتا۔ امید ہے کہ اوپر شہباز شریف کا سابق سرکاری افسر اور ہارون صاحب دونوں اپنے اپنے کینڈے میں کام کریں گے ۔