لاکھوں افغان خوراک کی کمی کا شکار

0
79
کوثر جاوید
کوثر جاوید

پاکستان نے بدامنی کے شکار افغانستان میں خوراک کی کمی کے پیش نظر امدادی آپریشن کی خاطر اپنی خدمات فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔افغانستان میںلاکھوں افراد خوراک کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں۔جس پر اقوام متحدہ نے پاکستان سے مدد طلب کر لی ہے۔اقوام متحدہ فوڈ پروگرام کے تحت افغانستان میں خوراک کی فراہمی کیلئے پاکستان کی مدد چاہتا ہے۔پاکستان نے اقوام متحدہ کو اس سلسلے میں مدد کی یقین دہانی کرائی ہے جس کے بعد عالمی ادارہ خوراک افغانستان کو خوراک کی فراہمی کیلئے پاکستان کے ہوائی اڈے استعمال کرے گا۔پاکستان نے ایئر پورٹ استعمال کرنے کی اجازت کے ساتھ یہ شرط عائد کی ہے کہ امدادی پروازوں میں فوجی سامان لے جانا منع ہو گا۔ پرواز میں کسی قسم کا اسلحہ اور کیمیکل بھی نہیں رکھا جا سکے گا۔شرائط میں یہ شامل ہے کہ پاکستان سے کابل جانے والی امدادی پرواز میں جو سامان جائے گا اس کی تفصیلات پاکستانی حکام کو فراہم کی جائیں گی۔عالمی ادارہ خوراک امدادی آپریشن کی فیس پاکستان کو فراہم کرے گا۔مزید برآں یہ کہ کابل میں خوراک پہنچانے کیلئے جو طیارے اور ہیلی کاپٹر استعمال ہوں گے وہ صرف اسلام آباد اور پشاور ایئر پورٹ سے پرواز کر سکیں گے۔اسلام آباد سے دو افراد پر مشتمل عملے کے ساتھ روزانہ پرواز کابل کیلئے روانہ ہو گی جبکہ ایم 18ہیلی کاپٹر کے ذریعے6افراد پشاور سے خوراک لے کر کابل جا سکیں گے۔خوراک کی فراہمی کا یہ آپریشن یورپی یونین کے امدادی ادارے کی طرف سے خوراک کے ذخائر ختم ہونے کے انتباہ کے بعد شروع کیا جا رہا ہے۔
امریکی انخلاء کس قدر نامکمل اور بدانتظامی پر مبنی ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ طالبان نے پورے ملک پر قبضے کیلئے اس بار خون خرابہ نہیں کیا لیکن خوراک کی فراہمی کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق تین افغان شہریوں میں سے ایک بھوک کا شکار ہے جبکہ عام ایام میں بھی بیس لاکھ بچے خوراک کی قلت کا سامنا کر رہے تھے۔بدامنی اور سرکاری ملازمین کی بڑی تعداد کا ملک سے فرار ہونا خوراک کی فراہمی کے کام کو متاثر کر رہاہے۔لوگوں کی بڑی تعداد اپنے آبائی علاقے چھوڑ کر کابل اور اس کے اردگرد آ گئے ہیں۔انہیں یہاں کھانے کا سامان درکار ہے۔افغانستان کو خوراک کی فراہمی کا معاملہ اس لحاظ سے تشویشناک ثابت ہو سکتا ہے کہ سردیوں کی آمد آمد ہے۔افغانستان میں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں سردیوں میں برف باری کے باعث راستے بند ہو جاتے ہیں۔ان علاقوں کے باشندے موسم سرما کی ضروریات پیش نظر رکھ کر خوراک ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ اس بار چونکہ پورے ملک میں ہنگامی حالت ہے اس لئے گھروں میں خوراک ذخیرہ کرنے کا معاملہ مشکل دکھائی دیتا ہے۔دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ اور انخلا کی منصوبہ بندی کے دوران امریکہ اور نیٹو ممالک نے پاکستان کے کردار کو نظر انداز کئے رکھا۔اشرف غنی آخر وقت تک افغانستان کے علاقائی مفادات بھارت کے نقطہ نظر سے دیکھتے رہے۔یہی زاویہ نظر امریکہ نے اختیار کر رکھا تھا۔یہی نہیں پاکستان کیلئے کئی بڑی فضائی کمپنیوں نے پچھلے دس برس میں آپریشن ختم کر دئیے۔طالبان کی واپسی کے بعد کابل ایئر پورٹ پر بیٹھے اہم غیر ملکی اور عالمی اداروں سے وابستہ افراد کے بحفاظت انخلا کیلئے پی آئی اے نے قابل قدر کردار ادا کیا ہے جس پر جرمنی کی حکومت اور سفیر پاکستان کی ان خدمات کا اعتراف کر چکے ہیں۔
صرف ایک پی آئی اے نے کابل سے گیارہ سو سے زائد افراد کو اپنی پروازوں کے ذریعے نکالا۔کابل سے مختلف ممالک کے 900سفارت کاروں’صحافیوں اور عالمی تنظیموں کے کارکنوں نے پی آئی اے سے سفر کیا۔پاکستان نے ایسے تمام افراد کے لئے آن ارائیول ویزہ دینے کی پالیسی اختیار کی جس سے ہنگامی حالات میں آنیوالے غیر ملکیوں کیلئے سہولت پیدا ہوئی ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کا افغان پناہ گزینوں کے ساتھ سلوک بڑے نامناسب انداز سے سامنے آیا ہے۔عالمی رپورٹس کے مطابق افغانستان سے آنیوالے مہاجرین کو دو سال کیلئے سیاسی پناہ دی جارہی ہے اور ویزا کی میعاد ختم ہونے کے بعد انہیں افغانستان واپس جانا ہوگا۔زیادہ تر افغان مہاجرین کو بھارت میں سہولیات تک رسائی میں مسائل کا سامنا ہے کیونکہ ان کے پاس شہریت نہیں ہے۔بھارتی حکومت کے امتیازی رویے کی وجہ سے افغان مہاجرین کو غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here