امریکی افواج کا انخلا مکمل!

0
128
پیر مکرم الحق

20برس بعد آج امریکی افواج نے افغانستان سے اپنا آخری فوجی سپاہی واپس بلا لیا۔لیکن اب افغانستان میں کیا ہونے جارہا ہے کسی کو بھی اندازہ نہیں، تقریباً تین کروڑ کی آبادی والا یہ ملک جسکی اسی فیصد عوام سنی اور بیس فیصد شیعہ آبادی ہے۔اسی طرح دو بڑی زبانوں میں بھی بٹاہوا ہے۔عوام کی اکثریت پشتو بولنے والی ہے لیکن دری(افغانی فارسی)کو سرکاری زبان ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔جس طرح اردو پاکستان میں رابطہ زبان ہونے کے ناطے قومی زبان ہے ۔افغانستان اس لحاظ سے بھی ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے کہ یہاں خطہ کے مختلف علاقوں سے آکر بسنے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے تقریباً چوالیس زبانیں اس ملک میں بولی جاتی ہیں ،دری اور پشتو کے علاوہ ترکی، ازبکسی، پاشائی، نورستانی، عربی اور بلوچی کے علاوہ اردو زبان بھی بولی جاتی ہے۔اردو بولنے والوں کی شرح تین فیصد ہے۔افغانستان کے وسط میں سنگلاخ پہاڑ ہیں لیکن اردگرد میدانی علاقہ بھی ہے اور تو اور ریگستانی علاقہ بھی موجود ہے۔اس ملک کے معدنی ذخیرہ جات اگر بتائے جائیں تو اکثر لوگ حیران اور پریشان ہوجائیں گے۔افغانستان کی شناخت طالبان ،داعش اور القائدہ کے حوالے سے مشہور ہے لیکن دراصل افغانستان معدنی ذخائر سے مالا مال ملک ہے۔ افغانستان میں سونا،پیتل، ہیرے، سنگ مرمر، جپسم، تیل اور قدرتی گیس کے بھاری ذخائر موجود ہیںلیکن بدقسمتی سے افغانستان پر جنگیں مسلط ہوتی رہی ہیں اور اسی وجہ سے افغانی لوگ جنگجو ہونے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانوں سے آج تک بڑی بڑی ریاستیں، بادشاہتیں جنگیں لڑتی رہی ہیںلیکن کوئی انہیں فتح نہیں کرسکا ہے۔لوگ مرتے رہے ہیں، لڑتے رہے ہیں ، اس لئے افغانستان کو بادشاہتوں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ سب سے پرامن حکومت بھی افغانستان کے ایک بادشاہ محمد ظاہر شاہد کی تھی جس نے افغانستان پر1933سے لیکر1973تک حکومت کی اور1964 میں اس ملک کو پہلا آئین دیا۔اس طرح اپنی بادشاہت کو آئینی تحفظ فراہم کیا۔ظاہر شاہد نے امریکہ اور سوویت یونین(آج کا روس)سے مدد لیتے ہوئے ملک میں مواصلاتی نظام قائم کرنا چاہا۔ سنہری نظام بھی بنانے کی کوشش کی لیکن70 کے اوائل میں افغانستان بدترین خشک سالی اور قحط کا شکار ہوگیا۔پشتون عوام میں زبردست بے چینی پیدا ہوئی، محلاتی سازشیں شروع ہو گئیں اور پھر گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ،ظاہر شاہ کا برادر نسبتی جنرل دائود خان جس نے جولائی1973کو حکومت پر قبضہ کرلیااور ظاہر شاہ کسی خونریزی سے بچنے کیلئے اگست 1973 ء کوخون کا ایک قطرہ بہائے بغیر حکومت سے مستعفی ہوگیا۔ملک کو چھوڑ کر اٹلی میں بسیرا کرلیا۔بارکذئی قبیلے کے ظاہر شاہ ولد نادر شاہ کو طالبان کی حکومت کے خاتمے پر امریکی حکومت نے آکر حکومت سنبھالنے کی دعوت دی لیکن انہوں نے معذرت کرلی۔انہیں بابائے قوم کا خطاب دیکر واپس روانہ کر دیا گیا2007ء میں93برس کی عمر میں ظاہر شاہد بارکزئی کا انتقال ہوگیااور اس طرح افغانستان میں بادشاہت کا باب اپنے اختتام کو پہنچا۔
اب کیا ہوگا؟اور داعش، خراسان گروپ کیا ہیں؟اوپر دیئے گئے دونوں سوالوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔امریکی فوج کے انخلاء کے بعد بظاہر تو طالبان برسراقتدار آچکے ہیں لیکن ابتدائی دنوں میں معلوم ہوگیا کہ افغانستان جو ایک آتش فشاں ہے۔اسے سنبھالنا ان بٹے ہوئے لٹے پٹے طالبان کے بس کی بات نہیں ہے ، آپ نے دیکھا کہ کابل ایئرپورٹ اور قرب وجوار میں جو خودکش حملے ہوئے ہیں۔ان پر نہ صرف طالبان کی بے بسی قابل دید ہے بلکہ اب انکی خاموشی بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ داعش خراسان کے خلاف بولنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔CNN(امریکی خبررساں ادارے کی چیف رپورٹر(بین الاقوامی)کلریسا وارڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے داعش خراسان نے طالبان کو ایک بکائو مال قرار دیا جو کچھ بیرونی طاقتوں سے ساز باز کرکے اپنے اصل مقاصد سے بھٹک گیا ہے۔یہ بیرونی طاقتیں کون ہیں؟۔سرفہرست ان بیرونی طاقتوں میں اشارہ پاکستان کی طرف ہے کیونکہ امریکی انخلا کے مذاکرات میں پیش پیش حقانی گروپ ہے۔جس کے متعلق عام تاثر ہے کہ انہیں پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔طالبان کے اکثر گروہ امریکا سے پاکستان کے معرفت مذاکرات کو پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھتے اور انہوں نے اس مکروہ کام میں اپنے ہاتھ گندے نہیں کئے۔لیکن اب امریکی انخلاء اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔اب جوتوں میں دال بٹے گی اور طالبان کے مختلف گروہوں میں اختلافات بڑھ کر ایک مکمل محاذ آرائی کی صورت اختیار کرلیں گے جس کے اثرات سے پاکستان بچ نہیں پائیگا۔یہ خراسان گروپ بھی ان اندرونی اختلافات کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ہے۔خراسان ایران، افغانستان اور پاکستان میں بلوچستان اور سیستان کے علاقوں پرمحیط ہے اور کیونکہ ان تینوں ممالک کی سرحدیں ملتی ہیں۔اس لئے نقل وحرکت کی آسانی ہے۔زبان بھی فارسی اور بلوچی ہے خراسان گروپ میں ناراض بھی ہیں جن کا بڑا حصہ پاکستان مخالف ہے۔بین الاقوامی طاقتیں بھی چاہتی ہیں کہ ان تینوں ممالک کو آپس میں بھڑکایا جائے تاکہ یہ جنگجو ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔اسی لئے کچھ عرصہ سے بلوچستان میں ناراض بلوچوں کی حمایت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ایرانی بلوچستان بھی ایرانی حکومت کی لاتعلقی کا شکار ہے افغانستان کے فارسی بولنے والے اور بلوچی بولنے والے بھی طالبان سے تنگ ہیں۔تو داعش خراسان بنیادی طور پر تینوں ملکوں کے بلوچی عوام کا گٹھ جوڑ ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here