لاہور (پاکستان نیوز) چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی زمان پارک سے گرفتاری کے لیے تحریک انصاف ، حکومت اور عدلیہ میں آنکھ مچولی جاری ہے ،جیسے جیسے محاز آرائی بڑھ رہی ہے الیکشن کا انعقاد کھٹائی میں پڑتا نظر آ رہا ہے ،پی ٹی آئی کی سابق وزیر صحت پنجاب یاسمین راشد کی صدر عارف علوی کے ساتھ مبینہ آڈیو لیک ہونے کے دوران بھی اس خدشے پر بات کی گئی کہ اگر خون خرابا بڑھا تو الیکشن کا انعقادمشکل ہو جائیگا ، یاسمین راشد نے یہ پیغام بھی دیا کہ خان صاحب کہہ رہے ہیں کہ اگر بندے نہ لائے گئے تو پارٹی ٹکٹ نہیں ملے گا، لاہور ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کی اتوار کو ہونے والی ریلی کو روکتے ہوئے 15 روز قبل منصوبہ بندی کرنے کی ہدایت کردی ، لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کے لیے زمان پارک میں جاری آپریشن کو کل تک ملتوی کر دیا ،ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ قانون کے مطابق عمران خان نے پولیس کے ساتھ تعاون کرنا ہے، غیر قانونی عمل سے آرڈر پر اثرانداز نہیں ہونا چاہیے، عمران خان ابھی عدالت میں سرنڈر کر دیں تو میں آئی جی کو گرفتاری سے روک دوں گا۔ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں توشہ خانہ کیس کی سماعت جاری ہے جہاں عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا وارنٹ بحالی کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔جج نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ اب تک عدالتی طریقہ کار سے سیشن عدالت کو موصول نہیں ہوا، جج نے استفسار کیا کہ آپ کو کیا لگتا ہے کیس قابل سماعت ہونے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو نوٹس دینا چاہیے ؟ مسئلہ ایک سیکنڈ میں حل ہو سکتا ہے، عمران خان کہاں ہیں؟ عمران خان ذاتی حیثیت میں عدالت میں کہاں پیش ہوئے ہیں؟ انڈرٹیکنگ کا کانسیپٹ کہاں پر ہے؟وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کیا ضروری ہیکہ عمران خان کو گرفتار کرکے ہی عدالت لائیں؟ جج نے ریمارکس دیے کہ ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان عدالت آجائیں، عمران خان کیوں نہیں آرہے؟ وجہ کیا ہے؟ قانون کے مطابق عمران خان نے پولیس کے ساتھ تعاون کرنا ہے، مزاحمت نہیں کرنی، عمران خان نے مزاحمت کرکے سین نہیں بنانا ہے۔جج نے ریمارکس دیے کہ اگر قابل ضمانت وارنٹ ہوتے تو مسئلہ ہی کچھ نہ ہوتا، وارنٹ ناقابلِ ضمانت ہیں، آپ جو دلائل بتا رہے ہیں وہ قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کے مطابق ہیں، کیس میں شورٹی تو آئی ہوئی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہیکہ غیرقانونی عمل سے آرڈر پر اثرانداز نہیں ہونا چاہیے۔خواجہ حارث نے کہا کہ شورٹی یہاں پر موجود ہے انڈر ٹیکنگ دے رہے ہیں،کیا یہی سختی رکھنی ہے کہ عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری رکھنے ہیں، جج نے ریمارکس دیے کہ وارنٹ گرفتاری عمران خان کی ذاتی حیثیت میں پیشی کے لیے ہیں، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان تو خود کہہ رہے ہیں کہ میں عدالت آنا چاہتاہوں، عمران خان استثنیٰ نہیں مانگ رہے، عدالت آنا چاہتے ہیں۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کیا اس وقت ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری کے فیصلے کی ضرورت ہے؟ آپ کے پاس دو آپشنز موجود ہیں، درخواست گزار آنا چاہتیہیں، پہلا آپشن آپ انڈرٹیکنگ کی درخواست منظور کرکے ناقابلِ ضمانت وارنٹ منسوخ کردیں، دوسرا آپشن آپ شورٹی لے کر قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کریں، عمران خان انڈرٹیکنگ دینا چاہتے ہیں کہ 18 مارچ کو سیشن عدالت میں پیش ہوں گے۔جج نے ریمارکس دیے کہ یہ دنیا کا سب سے مہنگا وارنٹ ہوگیا ہے، کروڑوں روپے اس وارنٹ کے پیچھے لگ گئے ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ وارنٹ اگزیکیوٹ کر دیتے تو بہتر تھا، جج نے ریمارکس دیے کہ وارنٹ اگزیکیوٹ کیسے ہوتا ناقابل ضمانت وارنٹ تھا، عدالت نے کہا کہ جو ہوا ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا،وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آپ جو کہ رہے میں اس کو مانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہونا چاہئیے تھا۔عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی استدعا کی جس پر جج نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو نوٹس بھی دیتے ہیں، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آپ نوٹس دے کر الیکشن کمیشن کو آج ہی بلالیں، جج نے استفسار کیا کہ لاہور زمان پارک میں صورتحال خراب کیوں ہے؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ حکومت سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے، گرفتاریاں ہوئی ہیں، زیادتی ہوئی ہے، زمان پارک میں جو ہو رہا ہے وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں اور کارکنوں کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے لاہور میں زمان پارک کے اطراف کا علاقہ میدان جنگ کا منظر پیش کرتا رہا۔پولیس عمران خان کی گرفتاری کے لیے لاہور میں ان کی رہائش گاہ زمان پارک کے باہر پہنچی لیکن وہاں پی ٹی آئی کے کارکن پہلے ہی ڈھال بن گئے تھے اور پولیس کو اندر داخل نہیں ہونے دیا جہاں کئی گھنٹوں تک وقفے وقفے سے پولیس اور کارکنوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔اس معاملے کو دنیا بھر کے معروف اداروں نے بھی بھرپور کوریج دی، سی این این نے بھی اس معاملے کو لائیو کور کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے گھر کے باہر افراتفری، گرفتاری کے لیے آئی پولیس اور کارکنوں میں تصادم ہو گیا۔امریکہ کی خاتون رکن کانگریس ساندا نے بھی لاہور میں پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی نہتے کارکنوں پر لاٹھی چارج، آنسو گیس شیلنگ پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ مہذب اور جمہوری معاشرورں میں ایسی روایات کو جنم نہیں لینا چاہئے، ہر کسی کو پرامن احتجاج کا جمہوری حق حاصل ہے ۔ ادارے نے لکھا کہ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے معاملے میں حکومت کے ملوث ہونے کے امکان کو مسترد کردیا جبکہ بلاول کی سی این این سے گفتگو کو بھی خبر کا حصہ بنایا جنہوں نے عدالتوں کا سامنا نہ کرنے پر عمران خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔بلوم برگ نے لکھا کہ عمران کی گرفتاری کے لیے آئے پولیس اہلکاروں اور کارکنوں میں تصادم ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم کی رہائش گاہ کے باہر پولیس اور عمران خان کے حامیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جو دوسری مرتبہ انہیں گرفتاری کے لیے آئی تھی اور اس کے نتیجے میں سیاسی بحران مزید شدید تر ہو گیا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے(بی بی سی) نے اپنی خبر میں بتایاکیا کہ لاہور میں پرتشدد واقعات کے بعد سابق وزیر اعظم کی جانب سے گرفتاری کی کوششوں کی مذمت کی گئی جبکہ خبر میں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا یہ دعویٰ بھی شامل تھا جنہوں نے کہا کہ عمران خان گرفتاری سے بچنے کے لیے عورتوں، بچوں اور پارٹی کارکنان کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ایک اور برطانوی خبر رساں ادارے اسکائی نیوز نے کہا کہ 70سالہ عمران خان اثاثے چھپانے، توشہ خانہ کے تحائف غیرقانونی طور پر فروخت کرنے، دہشت گردی سمیت متعدد مبینہ جرائم کے ارتکاب کے الزام میں نکالے گئے وارنٹ گرفتاری کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ٹیلی گراف نے لکھا کہ پولیس عمران خان کی گرفتاری کے لیے پرعزم ہے اور عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر ہزاروں کارکنوں کا پولیس سے تصادم ہوا۔الجزیرہ نے اپنی خبر میں کہا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت کا انہیں گرفتار کرنے کا مقصد الیکشن سے بچنا ہے جبکہ پولیس نے کہا تھا کہ وہ عمران خان کو دن کے اختتام تک گرفتار کر لیں گے لیکن وہ دن گرفتاری کے بغیر ہی گزر گیا۔اس طرح مختلف بھارتی اور ترک نشریاتی اور خبر رساں اداروں نے بھی لاہور میں عمران خان کی گرفتاری اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے علاوہ ملک کے مختلف شہروں میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے کیے جا رہے احتجاج کو بھی اپنی خبر کا حصہ بنایا۔