40لاکھ افغان بھوک کا شکار

0
40

نیویارک(پاکستان نیوز) اقوام متحدہ کے تحت عالمی خوراک پروگرام کو افغانستان میں سنگین انسانی بحران کے باوجود فنڈز کی کمی کا سامنا ہے40لاکھ افغان بھوک کا شکار ہو گئے۔ افغان طالبان سربراہ ہبت اللہ کے لئے نیا چیلنج سامنے آگیا۔ وزیرداخلہ سراج الدین حقانی نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عارضی قرار دیدی۔ میڈیا رپورٹس کے مطاق عالمی ادارہ خوراک نے ایک بیان میں کہا کہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے کم از کم 40لاکھ افراد کو مارچ میں ملنے والی رقم میں سے نصف حصہ ملے گا۔اس نے کہا کہ اپریل میں افغانسان میں ایک کروڑ30لاکھ افراد تک خوراک پہنچانے کے لیے فوری طور پر نو کروڑ30لاکھ ڈالر کی ضرورت ہے۔ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے جنگ زدہ ملکی معاشی بحران سے دوچار ہے۔ دوسرے ممالک کی حکومتوں نے ترقیاتی فنڈنگ میں کٹوتی کی ہے اور بینکاری کے شعبے پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت کچھ اداروں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ طالبان انتظامیہ کی جانب سے گزشتہ سال خواتین کے کام کرنے پر پابندی کے بعد امداد دینے والے ممالک اور ادارے انسانی امداد کے پروگرام سے دستبرار ہو جائیں گے۔ طالبان حمکومت نے دسمبر میں غیر سرکاری تنظیموں کے عملہ میں شامل زیادہ تر افغان خواتین کو کام کرنے سے روک دیا تھا۔ عالمی خوراک پروگرام کی مارچ میںفنڈنگ میں کمی کی وجہ سے فوری طور پر واضح نہیں ہو سکی۔ راشن کی ترسیل میں یہ کمی خاص طور پر سخت، مہلک سردی کے اختتام پر ہوئی ہے، جب بہت سے کنبوں کو کھانے پینے کی اشیا کی قلت کا سامنا ہے جبکہ گندم کی نئی فصل کی کٹائی مئی میں متوقع ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق قریباً90فی صد افغان اپنی خوراک کا بندوبست کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتے ہیں ۔ افغانسان میں طالبان حکومت نے بھنگ کی کاشت پر پابندی عائد کردی۔ دریں اثنا افغانستان میں طالبات حتریک کے سربراہ ہبت اللہ اخونزادہ کو نیا چیلنج درپیش ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ان کی حکومت کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کو عارضی قرار دے دیا ہے۔ حقانی نے اعلان کیا کہ ملک میں چھٹی جماعت سے اوپر لڑکیوں ک تعلیم معطل کرنے کا معاملہ ایک عارضی فیصلہ ہے اوریہ پابندی مستقل نہیں ہے۔ علما کے وفد کے ساتھ اپنی ملاقات میں سراج الدین حقانی نے کہا کہ تحریک اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اسلام نے مردوں اور خواتین دونوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا لازم قرار دیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here