نیا سال ویسے تو تمام ملکوں کیلئے مشکلات کا سامان لئے ہوئے ہے لیکن دور بیٹھے یہ نظر آرہا ہے کہ پاکستان کیلئے یہ سال نہایت اہم ہے یہ سال جس طرح انگریزی میں کہتے ہیںMake orBreak یا آر یا پار سال ہیں۔ جنرل باجوہ، جنرل فیض اور عمران خان کے گھٹنوں نے پاکستان کی جڑیں ہلا دیں ہیں۔ جبکہ اب یہ نوک اپنے عہدے چھوڑ گئے ہیں لیکن اداروں پر اب بھی انکے اثرات باقی ہیں۔ جنرل باجوہ کا آخری فیصلہ یہ تھا کہ افواج پاکستان اب سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے یعنی نیوٹرل ہوگئے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنے میں دیر کر دی گئی تھی ملک کا سیاسی نظام نڈھال ہے جس میں فیصلے کرنے کی صلاحیت چھین لی گئی ہے یا یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ نکال دی گئی ہے ،اب پھر فیصلہ کرنے کیلئے لوہاروں کو دعوت دی گئی ہے جس کے تحت ملکر وہ قومی محاذ کو یکجا کرنے کیلئے لوہاروں نے گورنر ٹسوری کو اپنا ”کوھار” بنا کر بھیج دیا ہے اور وہ آجکل متحدہ کی بکھری ہوئی گاڑی کے کل پرزوں کو اکٹھا کرکے ورلڈ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کوشش میں سویلین لوہاروں کی آشیرباد بھی شامل ہے ،الطاف بھائی کے ساتھ بھی بات چیت ہو رہی ہے۔ اب ہم سب کو بھائی بہت یاد آرہے ہیں کہ یار اس منگول خان سے تو بھائی اچھے تھے ،وہ تو کچھ لے دیکر راضی ہو جاتے تھے ،یہ ظالم منگول خان تو لے کر بھی وبال جان بن جاتا ہے۔ اب کچھ عرصہ بعد کراچی کی دیواروں پر مطالبات رکھے ہوئے پائیں گے کہ ”الطاف بھائی واپس آجائو” کراچی آپ کے بغیر سونا ہوگیا ہے۔ لیکن الطاف بھائی نے کچی گولیاں نہیں کھیلیںہیں وہ بھی تیل دیکھیں گے تیل کی دھار دیکھیں گے وہ پہلے انتظار کرینگے کے بڑے لوہار صاحب لندن سے آجائیں انکے واپس عہدے پر آجانے کا انتظار کرینگے جب بڑے میاں صاحب پوری طرح جم جائینگے تو الطاف بھائی اپنی لندن سے واپسی کی رٹرن ٹکٹ بک کرائیں گے بھائی کو اپنی جان بہت پیاری ہے۔ ویسے بھی لندن میں تن تنہا رہ کر رو روکے انکا وزن گھٹ گیا ہے۔ منی لانڈرنگ کی وجہ سے بھائی پائونڈ پائونڈ کے محتاج ہوگئے جن وفاداران کے نام لندن میں جائیدادیں خریدی گئی تھیں ان بے وفائوں نے منہ پھیر لئے اور کہا بھائی یہ تو ہمارے دادا کی جو جائیدادیں ہندوستان میں بچیں تھیں ان میں آخر ہمارا حصہ تھا جس میں سے یہ جائیداد ہم نے خریدی، کاغذی ثبوت بھی تو ہم ہی نے بنائے تھے۔ لیکن دوسری طرف کراچی کی آدھی عوام خوف سے کانپ رہی ہے کیونکہ اب تو ”بوریاں بننے کا ذور شروع ہوگا اور اگر ابکے الطاف بھائی واپس آئے تو وہ گن گن کے بدلے لیں گے۔ البتہ فاروق ستار ابھی تک ٹسوری بھائی کی باتوں میں نہیں آئے ہیں آخر میمن بچہ ہے گھاٹے کا سودا کبھی نہیں کریگا نہ ہی اسے مرنے کا کوئی شوق ہے۔ ارے بھائی، الطاف بھائی وہ جن ہیں جو ایک دفعہ لندن کی بوتل سے نکل آئے تو واپس نہیں جائیں گے۔ اس لئے خدا کے واسطے انکے بغیر کام چلا لو لیکن انکو واپس نہیں لانا ورنہ منگول خان کے لانے والے فیصلے سے بھی زیادہ پچھتائو گے۔ پاکستان میں اقتدار اب دو منہ والی بال بن گئی ہے۔ کوئی اس میں ہاتھ ڈالنے والا نہیں ہے عالمی حالات جس تیزی سے ابتری کی طرف جارہے ہیں۔ ہمارے پرانے دوست چین نے روس کے ساتھ دوستی کو مزید مضبوط کرنے کی بات کرکے مغربی بلاک کی مخالفت میں سوشلسٹ بلاک کو مخالفت میں کھل کر سامنے آنے کا اعلان کر دیا ہے کیونکہ اب چین کے اندر اظہار رائے کی آزادی کی آواز اُٹھ گئی ہے پہلی مرتبہ چین کی طرف سے کرونا وائرس سے متعلق پابندیاں کو عوامی دبائو میں آکر نرمی کا اعلان اس امر کا ثبوت ہے کہ گلوبل ولیج کا سوشل میڈیا آمرانہ نظام کیلئے چیلنج بنتا جارہا ہے اب یہ دبائو بدتریج بڑھتا جارہا ہے۔ ادھر ایران میں اخلاقی پولیس کیخلاف احتجاج کی وجہ سے ایرانی حکومت کو نرمی کرنی پڑی۔ افغانستان میں خواتین کو تعلیمی سہولیات روک دینے کے خلاف مہم میں بھی دن بدن اضافہ اور شدت آرہی معاشی مسائل اور مہنگائی فقط پاکستان کا مسئلہ نہیں عالمی سطح پر مہنگائی کی شرح میں زبردست اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کا بڑا مسئلہ منگول خان کی حالات بگاڑنے کی متواتر کوششیں ہیں اور عوام بھی مہنگائی سے بہت تنگ ہے عوام یہ بھی جانتی ہے کہ منگول خان نے نہ پہلے کچھ کیا تھا نہ اب کر پائیگا لیکن عوام اب نو ہاروں سے بھی تنگ آگئی ہے چاہئے وہ سویلین لوہار ہوں یا وردی والے لوہار! آخری بات لکھ تو دی ہے لیکن اب مجھے کپکپی ہو رہی ہے۔وردی والے لوہاروں سے مراد، بھائی باوردی سٹیل مل میں کام کرنے والے مزدور ہیں۔
٭٭٭٭