صرف گولی مارنے کی اجازت ہے آہ! یہ اجازت کیوں دی پر اسے تو اجازت کی بھی ضرورت نہیں تھی ثنا اللہ زرک اور شیتل کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ بلوچستان کے تپتے ویرانے میں ، غیرت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ۔ جرم وہی تھا ،زن ،زر، زمین، مار کٹائی کی پہلی وجہ جو ازل سے چلتی آرہی ہے ،اونچی پگڑیوں والے ستک زئی قبیلے کی شیتل جس نے مرضی سے نکاح کیا تھا اسے اور اس کے شوہر کو دھوکے سے بلا کر مار ڈالا گیا قبیلے والوں کی نظروں میں جرم تھا ، ان کے ریت رواج ایسے ہی ہیں توکیا یہ واقعی جرم ہے؟کیا اس سے کسی کی عزت پامال ہوتی ہے ؟ کسی کا گھر اجڑتا ہے؟کسی کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھے جاتے؟ نہیں۔ ہر گز نہیں !نکاح تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے، قرآن پاک میں اللہ سبحان و تعالیٰ فرماتے ہیں ،جو عورتیں تمہیں پسند آئیں، ان سے نکاح کر لوحکمِ ربی پر اتنی بڑی سزا قبیلے کی روایات کے خلاف نکاح، ہرگز نہیں قبیلہ بدر بھی تو کیا جاسکتا تھا مگر وہاں کے معاشرے میں رب کی رضا سے بڑا قبیلہ، غیرت اور جھوٹی انا کا ہے قبیلے کی خاندانی عزت اور وقار پر دھبہ جو لگا تھا جس کا مداوا اسی صورت ممکن تھا کہ انہیں مار دیا جائے ان کے پاس دوسرا رستہ نہیں تھا، دونوں جرم کرنے والوں کو غیرت کے نام پر دو درجن لوگوں کے سامنے قتل کردیا گیا گولیوں سے چھلنی کردیا گیا عورت کو تو جنگ میں بھی مارنے کی اجازت نہیں پر کچھ لوگ تو انہیں امن اور محبت میں مار دیتے ہیں .”شیتل بہادر تھی خود چل کر مقتل میں گئی نہ اسکے قدم ڈگمگائے نہ اس کے وقار میں کوئی کمی ہوئی نہ اس نے جان بچانے کے لیے واویلہ کیا ،نہ بھیک مانگی ،نہ گڑگڑائی ،وہ باوفا تھی، محبت کی خاطر با عزت طریقے سے موت کو گلے لگالیا اور امر ہو گئی۔ وہ اپنے قبیلے کو جانتی تھی کہ معاف نہیں کریں گے ،اس لیے کہہ گئی ”صرف گولی مارنے کی اجازت ہے ”! جبکہ اسے اجازت نہیں تھی ،گولی مارنے والوں کوبھی اجازت نہیں تھی نہ قانون میں ، نہ شریعت میں ، پرکون پوچھے گا کوئی قانون ہے جو پوچھے لیکن قانون بنانے والے تو خود قانون کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں جب ملک میں لاقانونیت ہو قانون اور آئین کی پاسداری نہ ہو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون نافذ ہو تو ایسی وارداتیں ہوتی رہیں گی جنگل کے قانون میں یہ سب چلتا ہے ،پر کوئی ہے جو اس کو روکے، کوئی ریاست، کوئی محافظ ،کوئی رہبر ،کوئی قانون کا رکھوالا جو صرف گولی چلانے کی اجازت نہ دے آہ!
٭٭٭













