فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
101

فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! امام عالی مقام علیہ اسّلام کے لخت جگر امام زین العابدین رضی اللہ عنہ صبروتوکل، رضا اور زہدو تقویٰ کے اعلیٰ مراتب پر فائز تھے آپ کا لقب سجاد ہے۔ کفیتیں ابومحمد، ابوالحسن اور ابوبکر ہیں۔ آپ کا اسم گرامی علی ہے۔ زین العابدین بھی آپ کا ایسا مشہور لقب ہے جو نام پر مکمل غالب ہے آپ کی ولادت باسعادت مدینہ منورہ میں پچیس جمادی الاولیٰ٣٨ کو ہوئی۔ آپ کی والدہ محترم کا نام شہر بانو بنت یزیدحبر رضی اللہ عنھا ہے آپ رضی اللہ عنہ کی عمر مبارکہ تقریباً تین سال تھی جب آپ کے دادا جان حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شہادت کوفہ کی جامع مسجد میں ہوئی۔ واقعہ کربلا کے وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر مبارکہ تقریباً23سال تھی۔ جب آپ کے تایا جان حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو آپ کی عمر مبارکہ تقریباً گیارہ سال تھی۔ یہ بھی آپ کا امتحان تھا کہ آپ عین کربلا کے موقع پر بیمار ہوئے اور واقعہ کربلا کے بعد کے تمام صدمے آپ کو برداشت کرنا پڑے۔ جب یزید پلید نے لوگوں سے دمشق میں اسیران کربلا معلّی کے متعلق مشورہ کیا کہ بتائو ان کا کیا کیا جائے؟ آیا ان سب کو قتل کر دیا جائے یا قید میں رکھا جائے تو اس خبیث زمانہ کے حواریوں نے اس کو طرح طرح کے مشورے دیئے اکثر نے یہ رائے دی کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے۔ سیّدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے یزید! تیرے درباریوں نے تجھے وہ مشورہ دیا ہے کہ جو فرعون کے درباریوں نے بھی نہیں دیاتھا ،اس نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیھم اسّلام کے متعلق دریافت کیا تھا کہ مجھے ان سے کیا کرنا چاہئے تو اس کے درباریوں نے کہا تھا کہ ان کو قید کر ڈالو لیکن یہ تو ان سے بدتر ثابت ہوئے۔ یہ پوری تقریر آپ رضی اللہ عنہ نے پوری جرات اور بہادری سے کی اور کسی ایک لمحے بھی یزید پلیدو خبیث سے زندگی کی بھیک نہیں مانگی۔
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ اس درجہ کے متقی اور پرہیز گار تھے کہ جب آپ رضی اللہ عنہ وضو فرماتے تو رنگ خوف خدا کی وجہ سے زرد ہوجاتا۔ عرض کیا گیا آپ کی یہ حالت کیوں ہوجاتی ہے؟ فرمایا: جانتے نہیں ہوکہ میں کس ذات کے آگے کھڑا ہو رہا ہوں۔ آخری دم تک آپ رضی اللہ عنہ فرض نماز کے علاوہ ایک ہزار رکعت نماز نوافل ہر رات ادا فرماتے ہے۔ ابن شھاب فرماتے ہیں کہ میں نے آپ سے بڑھ کر کسی ہاشمی شہزادے کو عظمت وشان کے لحاظ سے نہ دیکھا حضرت سعید بن مسیّب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ سے بڑا پرہیز گار نہیں دیکھا۔ نماز کے دوران آپ رضی اللہ عنہ اس قدر مشغول ہوتے کہ ایک مرتبہ اپنے گھر نماز پڑھ رہے تھے کہ گھر میں آگ لگ گئی جبکہ آپ سجدے میں تھے لوگوں نے آگ بجھانا شروع کردی اور آپ کو آوازیں دیتے رہے ”یا ابن رسول اللہ! یا ابن رسول اللہ! مگر آپ سجدے میں ہی رہے جب سلام پھیرا تو دیکھا کہ گھر جلا ہوا ہے اور دھواں اٹھ رہا ہے آپ نے پوچھا یہ دھواں کیسا ہے؟ لوگوں نے ساری صورت حال بیان کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تو آخرت کی آگ بجھانے میں مصروف تھا آپ کے علم وفضل کے بارے میں اصحاب سیر لکھتے ہیں کہ آپ علم وعبادت کی بلندیوں پر فائز تھے اور دن رات میں اتنے مظائف پڑھتے کہ پوری جماعت بھی نہ پڑھ سکتی۔ آپ کے اخلاق عالیہ کے بارے میں نور الابصار میں ہے کہ آپ ایک مرتبہ مسجد سے باہر تشریف لائے تو ایک شخص سے آپ کی ملاقات ہوگئی جس نے آپ کی شان میں گستاخانہ الفاظ کہے۔ آپ کے غلام اس کی طرف لپکے آپ نے ان کو روک لیا اور فرمایا: اے شخص ہمارے حالات کا تو بہت حصہ آپ سے مخفی ہے اگر تجھ کو کوئی حاجت ہے تو بیان کر تاکہ ہم تیری معاونت کرسکیں پھر آپ نے اس کو اپنا ایک جبّہ مبارک اور پانچ ہزار روپے یعنی درھم دیئے اور اس کو یہ دیکھ کر حیا آئی۔ تو اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ واقعی اولاد رسولۖ ہیں۔
آپ کا تقب زین العابدین مشہور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ایک رات آپ نماز تہجد میں مصروف تھے کہ شیطان ایک سانپ کی شکل میں ظاہر ہوا تاکہ اس ہیبت پاک شکل سے آپ کو عبادت سے باز رکھ کر لہوولعب میں مشغول کردے۔ حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی یہاں تک کہ سانپ نے آپ کے پائوں کا انگوٹھا اپنے منہ میں ڈال لیا لیکن آپ نے پھر کوئی توجہ نہ دی۔ اس نے آپ کے انگوٹھے کو نہایت سختی سے کاٹا جس سے آپ کو بہت درد محسوس ہوا۔ اس کے باوجود بھی آپ نے نماز قطع نہیں فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ رپ منکشف کردیا کہ وہ شیطان آپ ہوگئے تاکہ درد ختم ہوجائے۔ دریں اثناء آپ نے ایک آواز سنی لیکن قائل نظر نہ آیا کہنے والا کہتا تھا آپ زین العابدین ہیں۔ آپ زین العابدین ہیں۔ آپ زین العابدین ہیں رضی اللہ عنہ شواہد النبوت میں ہے کہ حضرت خضر علیہ السّلام بھی آپ سے ملاقات کو آتے تھے ایک دن آپ کی اونٹنی راہ میں سستی مکاہلی کرنے لگی۔ آپ نے اسے بٹھا دیا اور اسے تازیانہ یا عصا دکھا کر کہا: تیز تیز چلو ورنہ اس تازیانے یا ڈنڈے سے تجھے سزا دوں گا اونٹنی نے تیز چلنا شروع کردیا اور اس کے بعد چلنے میں سستی سے کام نہ لیا۔اللہ تعالیٰ آپ کے درجے بلند فرمائے اور آپ کے فیوض وبرکات سے ہمیں وافر حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here