113 سال قبل سائیبریا کے جنگلات میں پراسرار روشنیوں سے آج بھی ماہرین پریشان

0
251

 

30 جون 1908 کو سائبیریا کے آسمان پر سورج جتنی تیز نیلے رنگ کی پراسرار روشنیوںکو دیکھا گیا

ماسکو(پاکستان نیوز)ہماری زمین پراسرار رازوں کا مجموعہ ہے جن میں سے کئی راز تاحال ماہرین کو چکرائے ہوئے ہیں، انہی میں سے ایک راز 113 سال قبل پیش آنے والا وہ واقعہ جس کی حقیقت کا سرآ ماہرین آج تک نہیں لگا سکے۔ یہ 30 جون 1908 کی بات ہے جب سائبیریا کے علاقے ایونکی کے رہائشیوں نے آسمان پر نیلے رنگ کی روشنی کی حرکت کو رپورٹ کیا تھا جو ان کے بقول سورج جتنی تیز تھی۔ روشنی کی رپورٹ کے 10 منٹ بعد ایسی گرج دار آواز سنائی دی جیسے بھاری توپخانے سے گولہ باری کی جارہی ہو۔ یہ آواز مشرق سے شمال کی جانب سفر کر رہی تھی جبکہ اس کے بعد ایک شاک ویو نے قصبے کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔ دھماکے کی آواز جس کی لہریں یورو ایشیا بلکہ برطانیہ تک زلزلہ پیما مراکز نے ریکارڈ کیے، مگر ایونکی اور ارگرد کے قصبوں کے رہائشیوں نے درحقیقت کسی قسم کے حقیقی دھماکے کو نہیں دیکھا۔ اس دھماکے کے بعد کئی دن تک ایشیا اور یورپ کے اوپر آسمان میں جگمگاہٹ کو دیکھا گیا جو برفانی ذرات بلندی پر بننے کا نتیجہ تھا جبکہ مختلف ممالک میں ماحولیاتی دباؤ میں تبدیلیاں دیکھی گئیں۔ اگرچہ دھماکا تو کسی نے دیکھا نہیں مگر اس کے مقام کو ضرور دریافت کرلیا گیا جو مشرقی سائبیریا میں واقع تھا۔ وہاں موجود 800 اسکوائر میل رقبے پر پھیلا جنگل یا 8 کروڑ درخت مکمل طور پر غائب ہوگئے اور اس کی کوئی وجہ بھی سمجھ نہیں آسکی۔ ابتدا میں سائنسدانوں کا ماننا تھا کہ وہ دھماکے کے اثر کا نتیجہ ہے مگر اس مقام پر کبھی کوئی گڑھا دریافت نہیں ہوسکا۔ مگر جنگل کا جتنا بڑا حصہ مکمل طور پر سپاٹ ہوگیا، اس کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا تھا کہ دھماکے کی طاقت 10 سے 15 ٹن تھی۔ سائنسدانوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر یہ دھماکا ہوا کیوں کیونکہ اتنی طاقت کا دھماکے سے ایک بڑے شہر تباہ ہوسکتا ہے۔ مگر اس کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا اور جب سے ہی سائنسدان کے ذہن چکرا رہے ہیں کہ آخر ایسا ہوا کیوں اور وجہ کیا تھی۔ خوش قسمتی سے وہ علاقہ آباد نہیں تھا ورنہ بہت زیادہ انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا مگر دھماکے کی حرارت کو دور دراز کے قصبوں کے رہائشیوں نے بھی محسوس کیا تھا۔ ایک عینی شاہد نے اس موقع پر بتایا کہ آسمان 2 حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا اور جنگل کے اوپر آسمان کا شمالی حصہ آگ سے بھرا ہوا لگتا تھا، اس کا کہنا تھا کہ اس وقت آسمان میں ایک دھماکا ہوا اور بہت بڑا کریش ہوا، ایسا کریش جس کو سن کر لگتا تھا کہ آسمان سے پتھر برس رہے ہوں یا فائرنگ ہورہی ہو۔ اسے ٹونگوسکا ایونٹ کا نام دیا گیا جو انسانی تاریخ کا اب تک سب سے طاقتور ریکارڈڈ دھماکا بھی ہے جس سے خارج ہونے والی حرارت ہیروشیما میں گرائے جانے والے ایٹم بم سے 185 گنا زیادہ تھی۔ مگر ایک صدی سے بھی زائد عرصے بعد ماہرین کے ذہنوں میں مختلف سوالات موجود ہیں کہ آخر اس جگہ ہوا کیا تھا۔ کچھ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ایک سیارچہ اس دھماکے کی وجہ تھی مگر اتنے بڑے خلائی جسم کے شواہد اب تک دریافت نہیں ہوسکے کچھ حلقوں کے خیال میں یہ آتش فشاں پھٹنے یا کان کنی کا کوئی حادثہ تھا مگر اس کے بھی شواہد نہیں مل سکے۔ درحقیقت سائبیریا کے اس خطے کا موسم ڈرامائی قسم کا ہے، جہاں موسم سرما کا دورانیہ بہت طویل ہوتا ہے جبکہ گرمی کا موسم بہت مختصر، جس کے باعث سطح میں ایسی تبدیلیاں آئی جن نے اس جگہ کو ناقابل رہائش بنادیا، بلکہ وہاں پہنچنا ہی بہت مشکل ہے۔ جب دھماکا ہوا تو کسی کو بھی تحقیقات کے لیے وہاں جانے نہیں دیا گیا کیونکہ روسی حکام کو مختلف خدشات تھے۔ سنہ 1927 میں روس کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے آخرکار اس جگہ کا دورہ کیا اور دریافت کیا کہ دھماکے کے لگ بھگ 20 سال بعد بھی وہاں ہونے والا نقصان ویسے کا ویسا ہی تھا۔ اس ٹیم نے خیال ظاہر کیا کہ ایک خلائی جسم فضا میں پھٹا جس سے یہ نقصان ہوا مگر کوئی بھی گڑھا یا خلائی ذرات دریافت نہیں ہوسکے۔ تو ٹیم نے یہ وضاحت کی کہ وہاں کا دلدلی خطہ اتنا زیادہ نرم تھا کہ اسے کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا جبکہ تمام تر ملبہ اس کے اندر دفن ہوگیا۔ مگر دلدلی حصے کی گہرائی میں کچھ بھی دریافت نہیں ہوسکا اور کچھ دہائیوں بعد روسی سائنسدانوں نے کہا کہ یہ کوئی شہاب ثاقب نہیں بلکہ دم دار ستارہ تھا، جن کا زیادہ تر حصہ چٹانی نہیں بلکہ برف پر مبنی ہوتا ہے۔ زمین کے ماحول پر ہونے والی تباہی کے بعد برف بخارات بن کر اڑ گئی مگر یہ خیال بھی درست ثابت نہیں ہوسکا۔ پھر عجیب خیالات سامنے آئے جیسے کسی خلائی مخلوق کا اسپیس کرافٹ اس مقام پر گر کر تباہ ہوا۔ سنہ 1958 میں محققین نے اس مقام سے سلیکیٹ اور مقناطیسی پتھر کے ننھے ذرات کو دریافت کیا اور مزید تحقیق سے ثابت ہوا کہ وہاں کی سطح میں نکل کی مقدار زیادہ ہے جو شہاب ثابت کا ایک جانا مانا عنصر ہے۔ مگر بحث تھم نہیں سکی اور 1973 میں ایک تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ ایک بلیک ہول کا زمین سے ٹکراؤ اس دھماکے کا نتیجہ ہوا مگر اس کی تردید پر مبنی تحقیق بھی فوری طور پر سامنے آگئی۔ سنہ 2014 میں یوکرین کے ماہرین کی ایک ٹیم نے دھماکے کے مقام سے 1978 میں اکٹھے کیے جانے والے چٹانی نمونوں کا تجزیہ کیا اور انہوں نے 1908 کی ایک تہہ کو دریافت کیا۔ ماہرین نے کاربن منرل کے آثار دریافت کیے، جو اس وقت تشکیل پاتا ہے جب کوئی شہاب ثابت زمین سے ٹکراتا ہے۔ مگر یہ بھی واضح نتیجہ نہیں تھا اور 2020 میں ایک تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ ایک بڑا آئرن شہاب ثاقب زمین کے اتنے قریب آگیا کہ بہت بڑا شاک ویو پیدا کرسکے، مگر ٹکڑے ہوئے بغیر زمین کے پاس سے گزر گیا، اور شاک ویو کا اثر اس خطے میں دیکھنے پر آیا۔ یہ واقعہ اب تک انسانی تاریخ کے چند پراسرار ترین واقعات میں سے ایک ہے جس پر اب تک تحقیقاتی کام جاری ہے، تاحال اس کی وضاحت نہیں ہوسکی کہ اس روز دراصل اس مقام پر کیا ہوا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here