ہجرت کے دوسرے سال حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا بھر کے بڑے بڑے بادشاہوں کے نام خطوط ارسال فرمائے، اس میں کہا گیا کہ اسلام لے آ سلامتی میں رہو گے اور دوہرے اجر کے مستحق قرار دیئے جا ئوگے ۔ورنہ دوسری صورت میں تمہاری قوم کے اسلام قبول نہ کرنے کا گناہ تمہارے اوپر بھی ہو گا اس کے بعد آل عمران کی آیت 64 لکھے گئے۔ خطوط میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر مبارک لگائی گئی یہ خطوط جامعیت اور اختصار کے لحاظ سے آپ صلااللہ علیہ وسلم کے مزاج کا حصہ تھی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ مصر و اسکندریہ کے پاس جس کا لقب مقوقس تھا حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کے پاس بھیجا گیا، رسول اللہ کا نامہ مبارک لے کر حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شاہ مقوقس کے دربار میں پہنچے اور متانت کے ساتھ جا کر کہا اے شاہ مصر تجھ سے پہلے اس ملک میں ایک شاہ گزرا ہے جو اپنے آپ کو (رب الاعلی )سمجھتا تھا اللہ نے اسے نشان عبرت بنا دیا، لہٰذا دوسرے سے عبرت حاصل کرو ایسا نہ ہو کہ دوسرے تم سے عبرت حاصل کریں ۔اس موقع پر شاہ مصر اور حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان مکالمہ ہوا جو حاضر خدمت ہے وہ کہنے لگا کہ اپنے نبیۖ کے بارے میں بتائیے کہ وہ اللہ کے نبیۖ ہیں حاطب بن ابی بلتعہ فرمانے لگے وہ نبی نہیں بلکہ اللہ کے رسول ۖبھی ہیں وہ کہنے لگا اگر وہ واقعی اللہ کے رسولۖ ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ جب ان کی قوم نے انہیں اپنی بستی یعنی مکہ سے نکالا تو انہوں نے اس کے لیے اللہ کے عذاب کی دعا کیوں نہیں کی ۔حاطب فرمانے لگے کیا آپ حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ کا رسول نہیں مانتے ہیں وہ کہنے لگا ؟مانتے ہیں !ابن ابی بلتعہ فرمانے لگے تو پھر آپ ہی بتائیے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا گیااور انہیں سولی دینے کا ارادہ کیا گیا، اللہ انھیں آسمان پر اٹھا کر لے گیا تو کیا انہوں نے اس بات کی دعا کی کہ اللہ بنی اسرائیل کو ہلاک کردے ؟ شاہ مقوقس کہنے لگا آپ ایک حکیم آدمی ہیں اور ایک عظیم و دانا آدمی کی طرف سے آئے ہیں ۔میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کچھ تحفے آپ کے ساتھ بھیجتا ہوں اور حفاظت کے لئے افراد جو آپ کے علاقے تک آپ کی نگہبانی کریں گے اس کے بعد رسول اللہ کے نام خط کا جواب اس طرح لکھا محمد بن عبد اللہ رسول اللہ کے نام مجانب مقوقس عظیم القدر میں نے آپ کا نامہ گرامی پڑھا اور جو کچھ اس میں تحریر تھا اور جس کی طرف آپ نے دعوت دی تھی میں نے اسے سمجھ لیا ہے میں جانتا ہوں کہ نبی آنے والا تھا لیکن میرا خیال تھا کہ اس کا ظہور شام سے ہوگا میں نے آپ کو عزت دی ہے میں آپ کی طرف دو کنیزیں ماریہ اور سیرین کو بھیجتا ہوں، وہ عظیم المرتبت ہیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور ایک خچر بھی آپ کی سواری کے لئے روانہ کر رہا ہوں، آپ پر سلامتی ہو چند اور تحائف بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیجے گئے جن میں دو کنیزوں ماریہ کے ان کی بہن سیرین کے علاوہ ایک سفید رنگ کا خچر ، قیمتی لباس سونا شامل تھا بعض روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ شاہ مقوقس نے ایک معالج بھی ساتھ بھیجا تھا جسے رسول اللہ نے یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ ہم لوگ سخت بھوک کے وقت کھانا کھاتے ہیں اور بھوک باقی ہوتی ہے تو ہم کھانے سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں۔حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کوشش تھی کہ وہ اپنے آقا و مولی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امانتیں جلد سے جلد حاضرہو کر ان کی خدمت میں پہنچا دیں لیکن انکی ہمراہی میں خواتین کی وجہ سے وہ اس برق رفتاری سے چل نہیں سکتے تھے یہ مختصر سا قافلہ منزلوں پر منزلیں طے کرتا ہوا مدینہ منورہ کے قریب تر ہوتا جارہا تھا دورانے سفر حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ان کے سامنے اسلام کی حقانیت بیان کرتے رہے اور رسول اللہ کے بارے میں بتاتے رہے دونوں بڑے غور سے سنتی رہیں اگر کسی مقام پر کوئی بات سمجھنے میں دشواری محسوس کرتی استفسار کر لیتی وہ سمجھ گئی تھی کہ دین اسلام ہی وہ دین ہے جو حق ہے اور اللہ کا پسندیدہ ہے آخرکار کئی دنوں کی طویل مسافت کے بعد یہ چھوٹا سا قافلہ حدود مدینہ منورہ میں داخل ہوا حضرت حاطب رضی اللہ تعالی عنہ سیدہ حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاں تشریف لے گئے معزز خواتین کو وہاں اتارنے کے بعد آپ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے اپنے محبوب کے قریب پہنچ کر نہایت ادب و محبت سے سلام عرض کیا اور خط پیش کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقوقس کے خط کو دیکھا اور اسے کھولے بغیر ہی بتا دیا کہ اس میں کیا لکھا ہے حضور نے حضرت ماریہ سے شروع سے ہی پردہ کروایا مقوقس نے بھی لکھا تھا کہ میں آپ کی خدمت میں جوخواتین بھیج رہا ہوں ہماری قوم میں انھیں بڑا درجہ حاصل ہے گویا اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے اعلی خاندان کی لڑکیوں کا انتخاب کر کے بھجوایا تھا،حضرت ماریہ کاہجرہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پڑوس میں رہا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں بہنوں کو ایک ساتھ اپنی غلامی میں جمع کرنا پسند نہ فرمایا اور ان دونوں میں سے ایک کے انتخاب کے لیے بارگاہ الٰہی میں دعا کی، اے اللہ اپنے نبی کے لیے ایک کو منتخب فرما، حضرت ماریہ کہتی ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں بہنوں پر اسلام پیش کیا تو حضرت ماریہ نے فور اسلام قبول کرلیا جب کہ آپ کی بہن حضرت سیرین رضی اللہ انہوں نے کچھ دیر بعد اسلام قبول کیا آپ صلی اللہ نے انھیں حضرت حسان بن ثابت کو ہبہ کر دیا جن سے حضرت عبدالرحمن بن حسان پیدا ہوئے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بہت پسند فرماتے تھے ان کو علیحدہ مکان عطا فرمایا اکثر اوقات آپ کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے اس وقت ان کی عمر مبارک بیس سال تھی، حضرت ماریہ امید سے ہوگئی آپ کی دیکھ بھال کے لئے حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہلیہ حضرت سلمہ رضی اللہ تعالیٰ کو منتخب کیا گیا آپ فرماتی ہیں ماریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بچے کی ماں بن گئیں حضرت سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خاوند کو بچے کی خوشخبری دینے کے لیے رسول اللہ کے پاس بھیجا ،جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے خوشخبری دے چکے تھے جب حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے رسول اللہ نے ارشاد فرمایا بیٹے کی ولادت کی خبر دینے آئے ہو جی ہاں یا رسول اللہ اللہ نے آپ کو چاند سا بیٹا عطا فرمایا ہے آپ بہت خوش ہوئے اور ابراہیم نام رکھا، بچے کی پیدائش کی خبر مدینہ منورہ کے گلی کوچوں میں پھیل گئی ۔ جب تمام ازواج مطہرات کو پتہ چلا تو ان کے اندر جذبہ رشک نے جگہ بنا لی وہ جانتی تھی کہ اب ان کی قدر و منزلت انکے آقا و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں میں اور بھی بڑھ جائے گی۔
عقیقے میں دو میڈھے ذبح کیے گئے انکا سر منڈایا گیا ، سر کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کی گئی اور بالوں کو زمین میں دفن کردیاگیا حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر مبارک جب ایک سال سے قدرے زیادہ ہوئیں تو ان میں اپنے والد محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہت نمودار ہونے لگی آپ بیٹے سے بڑی شفقت سے پیش آتے تھے جب آپ 18 ماہ کے ہوئے ایک روز ابراہیم کی حالت ناساز ہوئی، ماں نے اندازہ گیا اس جہان رنگ و بو سے ان کی رخصتی کا وقت قریب آگیا ہے تو نبی کریم کو اطلاع دی گئی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ابراہیم اپنی والدہ کی گود میں دم توڑ رہے ہیں، رسول کریم نے بیٹے کو اپنی آغوش میں لے لیا، دُکھ کی کیفیت رسول اللہ کے چہرہ اقدس سے نمایاں تھی ۔حضرت ماریہ قبطیہ پر بیٹے کی موت کا غم پہاڑ بن کر ٹوٹا تھا لیکن اپنے محبوب سے تا قیامت تک کے لیے بچھڑ جانے کا تصور کبھی خواب میں بھی نہیں آیا تھا لہٰذا یہ داغ جدائی ان کے لئے ناقابل برداشت تھی اپنے محبوب کی وسال کے بعد ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یادوں میں گم سم گم رہتی تھی اب ان کا زیادہ تر وقت یادِ الٰہی میں بسر ہوتا تھا ۔جب حضرت ماریہ کا وقت وصال آگیا بستر مرگ پر دراز ہو گئی اپنے بھانجے کی طرف بڑی محبت سے دیکھا جس کے پس منظر میں وہ اپنے بیٹے ابراہیم کو دیکھ رہی تھی، ان کے سر اور کانوں پر بڑے پیار سے ہاتھ پھیرا بہن کی نظروں میں دیکھا تو وہ تڑپ اٹھی اور پھر آخری سانس لے کر ہمیشہ کے لئے ابدی نیند سو گئیں اس وقت ان کی عمر مبارک 33 سال تھی، حضرت سیرین قبطیہ کے آنسو تھمنے کا نام نہ لیتے تھے ۔وصال کی خبر مدینے کے گلی کوچوں میں پھیل گئی،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا ۔
٭٭٭