آہ !راشد بیگ بھی چل بسے !!!

0
75
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین کرام آپکی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے ادیب و شاعر راشد بیگ بھی اس فانی دنیا کو چھوڑ کر چل بسے، قلم قبیلہ کراچی تا امریکہ اس غم میں اپنے خیالات کا اظہار کرچکا ہے ،کراچی سے ڈاکٹر عقیل عباس جعفری صاحب ہوں یا مرزا یٰسین بیگ صاحب کینیڈا سے شکاگو کا حلق ارابا زوق ہو یا نیویارک کا سب نے مرحوم کے اہل زمانہ و ادبی دنیا کو تعزیت پیش کی اس انکے لیئے دعائے مغفرت کا اہتمام کیا گیا انٹرنیٹ سے کچھ معلومات ملیں جو شیئر کرنا چاھتا ہوں ماسوائے ادبی دنیا و خبروں کے براہ راست راشد صاحب سے تعلق نہ تھا نہ کبھی ملاقات ہوء سوائے آن لائن مشاعروں کے جو کرونا کے دور میں مقبول ہوئے اور اب عام ہوچکے ہیں ۔یسین بیگ صاحب نے مندرجہ زیل اقتباس مرحوم کے نام سے شیئر کیا جو قارئین پڑھ سکتے ہیں اس کے زریعے راشد بیگ صاحب کا تعارف و خدمات کا اندازہ ہوگا جبکہ تمہید میں کچھ دیگر شعر و ادب کی خدمت کرنے والوں کا تزکرہ بھی آپکو پڑھنے کیلئے ملیگا ۔شاعری میں بہت حساسیت ہے، مجھے ان کے خاندان کا حصہ ہونے پر فخر ہے، عقیل عباس جعفری نے کہاکہ راشد نور صحافت کے شعبے سے وابستہ ہونے کے باوجود اشعار کہتے رہے، مجھے لگتا ہے اب ان کا شعری مجموعہ منظر عام پر آجانا چاہیے، زاہد حسین جوہری نے کہاکہ راشد نور آج بھی اپنی تہذیب ، ثقافت اور فن سے جڑئے ہوئے ہیں، وائس چیر پرسن ادبی کمیٹی فکشن ریحانہ روحی نے کہاکہ راشد نور کی اس شہر سے محبتیں کئی سالوں پر محیط ہے، میں صدر آرٹس کونسل کی شکر گزار ہوں جو تمام آرٹسٹوں کو جوڑے ہوئے رکھتے ہیں، جو لوگ کام کرتے ہیں احمد شاہ ان کو پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں، معروف صحافی اور شاعر نے کہاکہ آج میری زندگی کا پورا دور لوٹ آیا ہے، آج کا ادبی منظر نامہ دیکھ کر عجیب سا احساس ہوتا ہے، جو دور گزر گیا وہ بہت یاد گار ہے، سلیم احمداور قمر جمیل کے ساتھ ہماری تربیت ہوئی، احمد جاوید ہماری پوری نظم اور غزل کٹوا دیتے تھے، اس شہر کا منظر نامہ اتنا وقیع اور وزن دار ہے جو ہمیشہ رہے گا ، ہمارے اکابرین کی وجہ سے اس شہر کی رونقیں قائم ہیں، ان یادوں کو تازہ رکھنا چاہیے، فیض احمد فیض اس شہر اور ملک کا روشن باب ہیں، میں پاکستان کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا، پاکستان کا ادبی منظر نامہ بہت بڑا ہے، امریکا میں پاکستانی شعرا اپنی شاعری لے کر گئے، حمیرا رحمن، صبیحہ صبا، مجید اختر، عارف امام کا بہت کام ہے، عشرت آفرین بہت معروف شاعرہ ہیں تعارف:! ہماری خوش قسمتی ہے کہ دنیائے شعر و ادب کی ایک ممتاز اور معروف شخصیت محترم راشد نور صاحب پچھلے سال جون میں کراچی، پاکستان سے امریکہ فلوریڈا منتقل ہوئے اور ماہ سے شکاگو میں قیام پذیر ہیں۔ ان کامختصر سا تعارف بمع دو غزلیں، احباب کے مطالعہ کے لئے حاضر ہے:
نام ۔. راشد نور خاں
شاعرانہ معروف نام. . راشد نور
تعلیم.. ایم اے (صحافت )ایل ایل بی
والد. . ممتاز شاعر نور بریلوی مرحوم
شاعری کاابتداء غاز میٹرک کی تعلیم کے بعد کیا۔ابتداء اصلاح والد صاحب سے لی۔ گریجویشن کی تعلیم کے دوران مختلف کالجوں اور یونیورسٹی میں بین الکلیاتی مشاعروں میں شر کت کی اور انعامات حاصل کیے ریڈیو پاکستان کراچی کے بزم طلبا پروگراموں میں شرکت کی۔
باقاعدہ ادبی رسائل میں اپنی غزلوں کی اشاعت کا غاز 80 کی دہاء سے کیا اسی طرح مشاعروں میں بھی شرکت سے بہت بذ یراء ملی اور یوں انجمن سادات امروہہ کے تحت پہلے پاک و ہند مشاعرے میں شرکت کا اعزاز ملا۔ 87 میں ساکنان شہر قائد کا پہلا عالمی مشاعرہ جونیشنل اسٹیڈیم میں ہوا اپنا کلام سنا کر بھر پور پذیراء حاصل کی۔
جاپان قونصل خانہ اورپاک جاپان کلچرل ایسوسی ایشن کے تحت ہائیکو مشاعروں میں 30 سال تک مسلسل شر کت کی، طبعزاد ہائیکو لکھیں اور جاپانی ہائیکو کے ار دوتراجم کیے۔
شعروادب کے حوالے سے مختلف اداروں ارٹس کونسل ، کراچی پریس کلب،کراچی جم خانہ و دیگر ادبی اداروں سے ایوارڈ حاصل کیئے۔ کراچی سمیت اندرون ملک اور بیرون ملک مشاعروں اور کانفرنسوں میں شرکت کی۔ گذشتہ برسوں میں. ارٹس کونسل اف پاکستان کے زیر اہتمام عالمی اردو کانفرنس میں کء برسوں سے مختلف سیشنز میں کمپیرنگ کی اور مقالات پڑھے-
پاکستان سے باہر جشن کیفی اعظمی میں دوہا، قطر اور دوبء میں خصوصی شر کت رہی۔ گاہے بہ گاہے کء برسوں تک ابو ظہبی ، شارجہ کے عالمی مشاعروں میں بھی حصہ لیا۔ 2001 اور 2010 میں نارتھ امریکہ کیمختلف اسٹیٹس کے عالمی مشاعروں میں بھی شر کت کی۔
پیشہ ورانہ طور پر ابتداء ملازمت سر کاری محکموں میں کی،90 کی دہاء میں نواے وقت کراچی سے منسلک ہوے نیوز رپورٹنگ کے ساتھ شعرو ادب کے ایڈیشن کے 22سال تک انچارج رہے . . . علاوہ ازیں صہبالکھنوی کی ادارت میں شائع ہونے والے نامور جریدہ افکار میں معاون مدیر کے طور پر امور انجام دیے . . پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کراچی کے ادبی پروگراموں میں برسوں میزبانی کے ساتھ ساتھ انٹر ویوز اور کتابوں پر تبصرے کیئے ۔
شاعری کامجموعہ لمح موجود زیرِ اشاعت ہے۔ یاد داشتوں پرمبنی ممتاز اور لیجنڈ شخصیات کے حوالے سے کتاب زیرِ ترتیب ہے۔
غزل:
نظریں ہیں یوں ڈالی میں
جیسے کان کی بالی میں
عکسِ دل کا آئنہ
ان ہونٹوں کی لالی میں
عمر کے نازک پل پہ ہوں
اس دل کی رکھوالی میں
اندرہے جو سناٹا
گونج ہے اس کی تالی میں
دیکھ دعا نہ گر جائے
نظریں ڈال سوالی میں
یہ جو ہیں سب تاج و تخت
رہ جائیں گے تھالی میں
اپنے شعر پرکھنا کیا
میروغالب حالی میں
راشد اکھڑی سانسوں میں
عرض جنابِ عالی میں
غزل:
اب زیست مرے امکان میں ہے
وہ لمحہ لمحہ دھیان میں ہے
کچھ پھول تھے وہ بھی سوکھ گئے
اک حسرت سی گلدان میں ہے
اک تانتا سوچ نے باندھا تھا
اب چہرہ روشن دان میں ہے
دل ڈوبا پہلے غربت میں
اب پانی کچے مکان میں ہے
وہ معرک دل جیت کے بھی
پھر تنہا دل میدان میں ہے
ان گئے دنوں کے مو سم میں
اک ہجر کا دکھ مہمان میں ہے
ہے دشمن میرے تعاقب میں
اور خری تیر کمان میں ہے
محروم قارئین کرام ہم سب کو اس فانی دنیا سے ایک روز جانا ہے میرا تعلق سوائے قلم قبیلہ راشد بیگ مرحوم سے نہیں ہے لیکن اس دنیا میں شامل سب لوگ ایک دوسرے کے قلمی بھاء بہن ہوتے ہیں بڑے و استاد ہوتے ہیں۔ جنکے جانے کے بعد چھوٹے اور قدردان ان کیلئے ایسے ہی دعائیں کرتے ہیں جس طرح اپنوں کیلئے کی جاتی ہیں رسم دنیا کے مطابق عزت کے ساتھ انکو یاد کیا جاتا ہے اور ایسے ایک ادیب و شاعر نقاد کو یہ قلم قبیلہ ہمیشہ یاد کرتا ہے اہل قلم مرتے نہیں بلکہ انکی یادیں اور پیچھے چھوڑا تخلیقی مواد ہمیشہ نسلوں تک یاد کیا جاتا ہے اس کو سراہا جاتا ہے اور اس طرح مرنے والا شاعر و ادیب اپنے خیالات و ازکارات کو زندہ رکھتا ہے میری دعا ہے مرحوم کی اللہ پاک مغفرت فرمائیں اور لواحقین دوست احباب کو صبر جمیل عطا ہو اس کے ساتھ ہی اجازت دیں اگلے ہفتے پھر ملتے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here