ایک حقیقت

0
76
رعنا کوثر
رعنا کوثر

قارئین کرام! حالات اور وقت ہر انسان کی زندگی میں بہت سارے نشیب وفراز لے کرآتے ہیں۔ کچھ لوگ بدلتے حالات سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور کچھ پریشانیوں میں ہی زندگی گزارتے ہیں اب یہی دیکھ لیں کے ہمارے ملک سے لاتعداد لوگوں نے امریکہ ہجرت کی، کچھ لوگ عین جوانی میں امریکہ آکر آباد ہوگئے بعد میں انہوں نے شادیاں کی زندگی کے تمام قیمتی سال بچوں کا مستقبل بنانے میں لگائے کچھ لوگوں کو اچھا محلہ یہ ملا کے ان کے بچوں نے پڑھ لکھ لیا اور اپنے مذہب پر قائم رہے۔ شادیاں بھی ہم مذہب لوگوں میں کیں کچھ لوگوں کو مختلف قسم کے حالات سے گزرنا پڑا بچے وہ نہ بن سکے جو وہ چاہ رہے تھے کوئی پڑھائی میں پیچھے رہ گیا۔ کسی نے شادی ہی نہیں کی کوئی ان کو چھوڑ کر چلا گیا اور اپنی دنیا بسا لی۔ غرض کے عجیب وغریب حالات کا اس آزاد ملک میں سامنا ہوتا رہتا ہے۔ جو لوگ تیس چالیس پہلے آکر آباد ہوئے وہ ہر طرح کے بدلتے حالات سے سمجھوتہ کر رہے ہیں اور خاموش ہوچکے ہیں۔
کچھ لوگ جوانی میں تو امریکہ نہیں آئے بلکہ پاکستان میں نوکری کرکے ایک خاصا وقت وہاں گزار کر بچے لے کر آئے۔ بچوں نے اپنی جوانی امریکہ کے آزاد ماحول میں شروع کی اور پھر وہ اس ماحول کو اپناتے گئے۔ والدین اور بچوں میں ذہنی مطابقت ختم ہوگئی بچوں کی آزادی دیکھ کر والدین شدید ردعمل کا اظہار کرنے لگے اور یوں گھر میں تنائو نے سب کو ہی عجیب سی صورتحال کا شکار کردیا بچے یہ کہنا چاہتے ہیں کے اگر ہم اپنی مرضی سے کچھ کر رہے ہیں تو ہم بالغ ہیں ہمیں حق ہے ہم کہیں اکیلے جائیں یا اپنا گھر الگ کرلیں ہم کو اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار ہے جب کے والدین کو ان کے اکثر فیصلے ہی غلط لگتے ہیں لڑکیوں کا الگ گھر لے کر رہنا روایت پسند والدین کے لیے مشکل ہوتا ہے ،وہ کبھی بھی صورتحال سے سمجھوتہ نہیں کرتے، کچھ گھرانوں میں ابھی بھی بچے والدین کی بات سن رہے ہیں ،سمجھ رہے ہیں ،ایسے والدین کو چاہئے کے اپنے بچوں کی قدر کریں۔ اور ان کے جائز فیصلوں پر ان کو خوشی سے اجازت دیں ان کی تعریف کریں کے وہ مغربی ماحول میں ہو کر بھی آپ کے فیصلوں کی قدر کر رہے ہیں کسی غلط عادت اور برائی کا شکار نہیں ہیں۔لیکن جو والدین بچوں کی آزادی سے خائف ہیں اداس ہیں یا پریشان ہیں وہ بھی حقیقت کی دنیا میں آکر یہ سوچیں کے وہ کہیں زیادہ جذباتی تو نہیں ہو رہے کیا انہیں اپنے بچوں سے بیٹھ کر بات کرنے کی ضرورت ہے ان کے بھی خیالات سنیں وہ ایسے ملک میں ہیں جہاں ان پر ماحول کا اثر بھی ہے اور دبائو بھی اس لیے وہ کچھ تو ایسی باتیں کریں گے جو آپ کو پسند نہیں آئیں گے مگر کیا وہ حقیقت میں کسی برائی کی طرف مائل ہیں یا محض کوئی خواہش پوری کرنا چاہ رہے ہیں جیسے کے کہیں تفریح کرنے دوستوں کے ساتھ جانا چاہ رہے ہیں یا کہیں پڑھنے جانا چاہ رہے ہیں تو پھر آپ ان سے ناراض ہونے کی بجائے ان سے بات چیت کریں اگر بات سمجھ میں آتی ہے تو ان کو خوشی سے اجازت دیں۔
یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کے ہم سب ایک ایسے ملک میں آکر آباد ہوئے ہیں جہاں رسم و رواج روایات مشرق سے ہٹ کر ہیں۔ اور ہم سب کو بہت سارے چیلنج ہیں جن کا مقابلہ کرنا ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here