آج کے اس دور میں ہر بندہ تقریباً دوسرے کی اصلاح میں لگا ہوا ہے، اقوال زریں کی بھرمار سوشل میڈیا پر گھوم رہی ہے۔ ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ میں تو ٹھیک ہوں دوسرے خراب ہیں۔ اس لئے جتنے بھی اصلاح مفکر ہیں اور جتنی بھی اصلاح کی تنظیمیں ہیں۔ مشرق وغرب جنوب وشمال سب کا ایجنڈا ایک ہے ہمیں دوسروں کی فکر کرنی ہے۔ چیدہ چیدہ اچھے رزلٹ بھی نکلے ہیں مگر معاشرہ میں نتیجہ کہیں نظر نہیں آتا۔ مثلا ہمارے ملک پاکستان کے ایک مایہ ناز مصلح ومبلغ جناب مولانا طارق جمیل صاحب جن کا طوطی بولتا ہے ہزاروں کی زندگیاں سنواریں مگر دوسروں کی زندگیاں سنبھالتے سنبھالتے اپنے جواں سال بیٹے سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ خودکشی حرام فعل ہے جس گھر میں تبلیغ کا مرکز ہو۔ اور معاشی بدحالی کا شکار بھی نہ ہو۔ یہ کہنا کہ ڈیپریشن کا شکار ہو کر اپنے آپ کو گولی مار لی ہمیں حضرت مولانا طارق جمیل کی خدمات سے کوئی انکار نہیں۔ مگر ڈیپریشن کا سبب بھی مولانا صاحب ہی ہیں۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ مولانا اپنے بچے کو وقت نہیں دے سکے کیونکہ وہ دوسروں کی اصلاح کی فکر میں لگے ہوئے تھے اللہ کے پاک کلام میں اصولی ہدایت عطا فرمائی ہے ارشاد ربانی ہے سورہ مائدہ آیت 105اے ایمان والو اپنی اصلاح کی فکر کرو کسی دوسرے کی گمراہی سے تمہارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہ راست پر ہو اللہ کی طرف سب کو پلٹ کر جانا ہے پھر وہ تمہیں بتا دیگا۔ تم کیا کرتے رہے ہو دوسری جگہ اللہ کے رسولۖ کا فرمان ذی شان ہے ترمذی شریف”جب تم دیکھو کہ لوگ جذبہ بخل کی اطاعتت کر رہے ہیں۔ اور خواہشات نفسانی کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ دنیا کو ہر معاملے پر ترجیح دی جا رہی ہے ہر شخص اپنی رائے پر گھمنڈ میں مبتلا ہے تو ایسے میں خاص طور پر اپنی اصلاح کی فکر کرو۔ اور عام لوگوں کے معاملے کو چھوڑ دو۔ سرکار دو عالم کا دوسرا فرمان ذی شان ہے تم میں سے ہر شخص ذمہ دار اور نگہبان ہے اس سے اسی کی نگہبانی اور ذمہ داری کا حساب لیا جائے گا۔ اللہ کے پاک کلام اور سرکار دو عالم کے فرمان ذی شان کا مطلب یہ ہے کہ ہم میں ہر آدمی اپنے رعیت کا مسئول ہے۔ اور ہماری مسئولیت کا ہی سوال ہوگا۔ ہاں اگر ہم سمجھ جائیں کہ ہم نے اپنی فکر کرلی ہے۔ بچوں کو بیوی کو سمجھا دیا ہے تو پھر دوسرے کی اصلاح کیلئے ہم نکل سکتے ہیں۔ سو میرے بھائیو، ساتھیو، دوستوں یاد رہے کہ ہم نے سب سے پہلے اپنی فکر کرنی ہے۔ اپنے بچوں کو سنبھالنا ہے ماں باپ کی فکر کرنی ہے۔ پھر دوسرے کی اصلاح کے کیلئے نکلنا ہوگا۔ وگرنہ مولانا طارق جمیل جس صدمے سے گزر رہے ہیں۔ ہمیں بھی ایسے صدمے برداشت کرنا ہوں گے۔ اور اگر حقیقت میں ہم میں ہر ایک اپنا گھر سنبھال لے تو کسی دوسرے کو سنبھالنے کی نوبت ہی آئے گا۔
٭٭٭