سندھ میں آئندہ انتخابات میں مداخلت!؟

0
58
پیر مکرم الحق

میاں نوازشریف کے پاکستان آمد اور سندھ میں دلچسپی بڑھ جانا اور طاقتور حلقوں کی طرف سے اچانک پی پی پی کی تحریک انصاف میں دلچسپی نے آئندہ انتخابات میں گزشتہ تیرہ سال سے مسلسل جس پارٹی کی حکومت رہی ہے ،اس کے لئے دشواریاں پیدا ہونے کے امکانات بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ پی پی پی کا جلد انتخابات کروانے کا اصرار بھی اسکی مشکلات میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے۔ سابق ڈائریکٹر جرنل بشیر میمن کالی مسلم لیگ(ن) میں شرکت کرا کے (ن) لیگ کو سندھ میں پیر مضبوط کروانے کا آغاز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ کے لوگوں کی اچھی خاصی اکثریت پیپلزپارٹی کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے اور قوم پرست جماعتیں بھی تتر بتر ہیں اگر تو ان میں مل بیٹھنے کی صلاحیت ہوتی تو پارٹی کیلئے مشکلات کا سلسلہ کب کا شروع ہوجاتا۔ خوشامدیوں میں گھری پارٹی کو کچھ نظر نہیں آرہا کہ انکے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے۔ پارٹی میں بندربانٹ کا سلسلہ اب اوپر سے نیچے کی طرف تیزی سے آرہا ہے۔ مخلص کارکن دھکے کھا رہے ہیں:بھٹو کے نام اور نعرے بازی کا سحر اثر تیزی سے کھو رہا یا کم ہوتا جاتا ہے۔ اب لوگ نتائج مانگ رہے اپنے مسائل کا حل چاہیے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت مشکلات کا شکار ہے جو جماعت اندرونی طور پر مستحکم ہوگی وہی ان مشکل حالات سے نکل پائیگی۔”SURVIVAL OF THE FITEST” اب پی پی پی کو خواب خرگوش سے نکلنا پڑیگا ورنہ گڑھی خدا بخش انہیں کبھی معاف نہیں کریگا۔ بھٹو کا نام زندہ رکھنے کیلئے انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ گراس روٹ کی سطح پر کارکنان کو مضبوط کرنے کی ضرورت پارٹی کے اہم لیڈران کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ منشور کو جاندار اور حقیقت پسندانہ بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ نوجوان نسل اور انکے رجاحنات پر توجہ ضروری ہے۔ درمیانی قیادت نے تو پارٹی کے امور پر توجہ دینے کے بجائے مال بنانے کو اہمیت دے رکھی ہے۔ کوئی بھی عمارت جب بوسیدہ ہونا شروع ہوتی ہے تو پہلے بنیادیں کمزور ہوتیں ہیں اور پھر درو دیوار سندھ کی نوجوان نسل میں بے چینی اور بے یقینی سرائیت کر گئی ہے۔ میرٹ پر ملازمتیں تو قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔ بدعنوانی کے دیمک نے ویسے تو پورے معاشرے کو کھوکھلا کر دیا ہے لیکن سندھ کے لوگوں نے پی پی پی کو نااہلیوں، انتظامی ناکامیوں کے باوجود پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا لیکن اب وہ تھک گئے ہیں۔ مسلسل اقتدار میں رہنے کے باوجود ترقی کی رفتار سست سے سست ہوتی گئی ہے۔ بدعنوانی کی بدترین مثال گورکھ پہاڑی پراجیکٹ کا پوسٹر پارٹی کی پیشانی پر ایک بدنما داغ کی طرح عیاں ہے۔ گورکھ پہاڑی کی طرف جاتی ہوئی سڑک ہی اگر ڈھنگ سے بن جاتی تو سندھ کی قسمت جاگ جاتی لیکن اربوں روپے کا بجٹ حاصل ہونے کے باوجود سالوں سے پیش رفت نہ ہونا پارٹی اکابرین کی ناکامی، ان کی اہلیت اور دیانت پر ایک سوالیہ نشان کی طرح لٹک رہا ہے۔ کم ازکم اس منصوبے کے کرتا دھرتا لوگوں کو فارغ کرکے منتخب لوگوں کا ایک بورڈ آف گورنرز بنا کر جوابدہ بنایا جاتا لیکن کیونکہ وہ کرتا دھرتا مخصوص لوگوں کی جیبیں گرم کر رہے ہیں اسلئے وہ کرتا دھرتاUNTOUCHABLEبنے پھرتے ہیں۔ سندھ کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بننے والے ایک بہترین منصوبے کو اس بے دردی سے ضائع کرنے والے لوگ سندھ کی عوام کے ملزمان میں شامل ہیں۔ہل اسٹیشن گورکھ اگر سنگاپور کی کمپنی کے اشتراک سے یا ہانگ کانگ یاملائیشیا جیسے ممالک جن کا تجربہ اور تکنیکی مہارت تھی انکے اشتراک سے یہ منصوبہ بروقت اور بہتر انداز میں مکمل ہوتا تو کراچی سے سکھر تک کاروبار میں اعلیٰ ترین اضافہ اور بہتری ہوتی۔ موہن جوداڑو کے آثار بھی سیاحوں کی توجہ میں اضافہ کا سبب بنتے رتی کوٹ کا قلعہ اور قلندر شہباز کی مزار پر بھی حاضری بڑھتی لیکن صد افسوس کے عوام کے مالی حالات سنوارنے کا مینڈیٹ لانے والوں کو فکر اپنی تجوریاں بھرنے کی لگ گئی اور یہ منصوبہ جس سے سندھ والوں کی اُمیدیں وابستہ تھیں ،وہ حکمرانوں کی بدعنوانی کے سمندر میں بہہ گیا۔ وہاں مجروں کی نائیٹ ہوتی ہے جس میں ماڈل حسینائیں ہمارے وڈیروں کی راتیں رنگین کرتیں ہیں اور گورکھ کی پہاڑی پانی کو ترستی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بدعنوانی کی روک تھام والے ادارے کے افسران بھی ان رنگین راتوں کے مہمانوں میں شامل ہوتے ہیں اور جو بھی کے جیپ چلانے والے ڈرائیور جیپوں کے مہنگے کرائے حاصل کرکے اپنے گھروں کا خرچہ چلاتے ہیں۔ آنے والے انتخابات پی پی پی کے لئے ایک کھلا چیلنج ہے کہ آئو اور عوام میں کام کرو نئی صف بندیاں ہوں عوام کی بھلائی کے منصوبے لائو۔ پری فیبر یکسٹیڈ کا کارخانہ لگائو ترکی اور چین اس کام میں مہارت رکھتے ہیں۔ سیلاب زدگان و متاثرین کی دوبارہ آباد کرو ،گھر بنے بنائے لگائو کیونکہ لوگوں کا اعتبار نعروں اور خالی وعدوں سے اُٹھ گیا ہے۔ آنے والا وقت عوام کے شعور میں بے پناہ اضافہ لایا ہے اور اب مسائل کا حل کرویا کسی اور کو موقعہ دو والی بات ہونے لگی ہے۔ خواب خرگوش میں رہنے والی قیادت کو بوریا بستر باندھنا پڑیگا، وڈیرے سردار اور جاگیردار ان کے علاوہ میروں ،پیروں کا دور بھی نہیں رہے گا، موجودہ سال ایک باب کا اختتام کرکے ایک نیا باب رقم کرنے کا آغاز کریگا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here