”عمران خان کامیابی کی ضمانت”یہ ہمارے گزشتہ کالم کا عنوان تھا۔19ستمبر کا چکوال میں جلسہ ہمارے اس کالم کی تصدیق بنا جہاں نہ صرف جلسہ گاہ میں کپتان کے شیدائیوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجزن تھا بلکہ جلسہ گاہ کے اطراف واقع آبادی کے گھروں کی چھتوں پر خواتین، بچوں اور لوگوں کا انبوہ کثیر تھا، عمران کے حق میں نعروں اور محبت کے اظہار نے وہ سماں پیدا کردیا تھا جسکی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی(ماسوا قائداعظم) عوام کا یہ جذبہ جوش وخروش اور محبت کا اظہار ہی دراصل کپتان کی قوت اور کامیابی کی ضمانت ہے۔ کپتان کی کامیابی کی تصدیق مسلسل جلسوں کا27مارچ سے چکوال کے جلسے تک انعقاد اور عوام کے والہانہ انداز سے خیر مقدم کا وہ ریکارڈ ہے جو آج تک کسی بھی پاکستانی سیاسی قائد یا رہنما کا مقدر نہ بن سکا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عمران ایک ایسا رہنما بن کر سامنے آیا ہے جو اقتدار میں نہیں بلکہ اقتدار سے محروم کئے جانے کے بعد عوام کی آنکھوں کا تارہ اور عوام کے لئے نجات دہندہ کا مقام حاصل کر چکا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ملک میں حالیہ سیلابی صورتحال میں متاثرین کی بحالی کے لئے امداد کے حوالے سے پاکستانی عوام حتیٰ کہ اوورسیز پاکستانی بھی امداد وعطیات کے لئے حکمرانوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں بلکہ عمران پر اعتماد رکھتے ہیں۔ یہ سچائی کپتان کی میراتھون سے جہاں سامنے آئی وہیں ہم نے بالذات بھی دیکھی ہے کہ سرکاری اپیلوں پر عوام نے حکمرانوں پر بے اعتباری کا اظہار اور امدادی مہم میں عمران پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان اس وقت جس سیاسی ومعاشی ابتری سے دوچار ہے، اس سے ہر پاکستانی اور وطن عزیز شدید متاثر ہے۔ معاشی بدحالی اور سیاسی بے یقینی ملک کو مزید تباہی ونقصان کے اشارے دے رہے ہیں۔ عمران کے خلاف مہنگائی کا جواز بنا کر عدم اعتماد لانے والوں کی امپورٹڈ حکومت نے مہنگائی کو ان حدوں پر پہنچا دیا ہے جہاں عام آدمی اپنے لئے، اپنے خاندان کے لئے دو وقت کی روٹی سے بھی محروم نظر آتا ہے، مرے پہ سو درُے بجلی کے بلوں میں اضافہ(کراچی میں میونسپل ٹیکس کا اضافہ) پیٹرول، گیس میں ہوش رُبا اضافہ، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں راکٹ کی رفتار نے حشر برپا کیا ہے اور اس کا کوئی مداوا نظر نہیں آتا۔ قدرتی آفت کے باعث آدھے سے زیادہ ملک پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ ملیریا، ڈینگی، زہریلے جانوروں اور پانی سے بیماریوں اور اموات کا کوئی شمار نہیں ہے اور ایسے میں نااہل و درآمدی حکمران بیرونی دورے فرما رہے ہیں۔ اس تمام صورتحال سے ان غرض کے غلاموں کے خلاف عوام کی نفرت اور کپتان سے محبت اس درجہ بڑھ چکی ہے کہ یہ امپورٹڈ حکمران اور ان کے سہولت کار انتخابات سے فرار کے راستے اختیار کر رہے ہیں۔ عمران کے لئے عوام کی محبت اور حمایت ان حکمرانوں کے لئے سوہان روح اور اپنے سیاسی مستقبل کا خاتمہ نظر آرہی ہے۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر ہم مسلسل اپنے کالموں میں قارئین کو آگاہی دیتے رہے ہیں۔ کپتان کی طوفانی مقبولیت سے سازشی کرداروں اور فیصلہ سازوں کو احساس ہوا کہ ان کی متوقع امیدوں کے برعکس عمران خان سیاسی گمنامی کی جگہ عوامی حمایت ومقبولیت بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ ہم نے گزشتہ کالم میں کچھ پس پردہ رابطوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ کپتان اور فیصلہ سازوں کے درمیان جلد انتخابات پر کچھ مفاہمت سامنے آئی ہے، حوالے کے لئے کپتان کے آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق ریمارکس کی نشاندہی بھی کی تھی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مفاہمت کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی ہے اور اس کا پس منظر منطقی طور امپورٹڈ حکمرانوں کے اقتدار سے چمٹے رہنے کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے پارٹ پر کچھ تحفظات میں نظر آتا ہے۔ فواد چوہدری کے مطابق تو اس تعطل میں نگراں حکومت کی نامزدگی کے کچھ عوامل ہیں لیکن حکمرانوں نے طوطے کی طرح انتخابات اور آرمی چیف کی تعیناتی متعینہ وقت پر ہونے کی رٹ لگائی ہوئی ہے۔ البتہ فیصلہ سازوں کے ترجمان کی جانب سے خاموشی ہے۔
ایک دانشور کا قول ہے کہ آزادی کے لئے تبدیلی اگر بیلٹ سے نہ آئے تو بُلٹ سے آزادی حاصل کرنی پڑتی ہے یعنیWe Belive in Ballot if not we belive in Bulletکپتان بھی اپنے جلسوں اور بیانات میں بارہا یہ کہہ چکا ہے کہ اگر جلد منصفانہ وشفافیت پر مبنی انتخابات نہ کرائے گئے تو عوام حقیقی آزادی کے لئے پرامن انقلاب پر مجبور ہوں گے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات اور عدم استحکام کی پیش آمدہ صورتحال کے تناظر میں کپتان نے ستمبر کے آخری ہفتے میں لانگ مارچ کا اعلان کردیا ہے اور گزشتہ دو جلسوں میں نہ صرف عوام کو آخری کال کے لئے تیاری کا اشارہ دے دیا ہے۔ بلکہ مقتدرین اور مسٹر ایکس اور وائی کو بھی کھری کھری سنا دی ہیں۔ دوسری جانب شہباز شریف نے ملکہ برطانیہ کی آخری رسومات میں شرکت کے لئے لندن پہنچ کر اپنے مفرور بھائی و سابق وزیراعظم سے آرمی چیف کی تعیناتی وانتخابات کے انعقاد پر ہدایات لی ہیں۔ تفصیلات وذرائع کے مطابق ایک نااہل ومفرور سابق وزیراعظم آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ یہ اقدام آئینی، قانونی واخلاقی طور پر کسی بھی طور سے درست ہے یا موجودہ وزیراعظم کا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے برخلاف مجرمانہ فعل ہے اور کیا اس اقدام پر کوئی قانونی ایکشن ہوگا؟
بہرحال وطن عزیز کو عدم استحکام سے بچانے اور حالات کو بہتر بلانے کے لئے فیصلہ کرنے والوں کو آگے آکر مناسب اقدام اور عوامی اُمنگوں کے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے کہ ملک اور عوام سکون کا سانس لے سکیں اور حقیقی آزادی حاصل کرسکیں، فیصلہ کرنا ہے کہ بیلٹ یا بُلٹ! ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ انقلاب کبھی پرامن نہیں ہوتا ہے۔
٭٭٭٭