سیاست پاکستان کا پسندیدہ ترین موضوع ہے اور گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں شاید اتنے بچے پیدا نہیں ہوئے جتنے سیاسی ماہرین کا جنم ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا طبقہ ہے جن کی رائے ان کی خواہشات اور تخیلات کی پیداوار ہیں۔ شاید اسی وجہ سے اب پاکستان کے میڈیا اور سوشل میڈیا پر نظر دوڑائی جائے تو آپ کو بیک وقت ہر سیاسی جماعت ڈوبتی ہوئی اور کامیاب ہوتی ہوئی نظر آئے گی۔خواہشات پر مبنی ان ماہرانہ رائے کو عرف عام میں پروپیگنڈا بھی کہا جاتا ہے۔پروپیگنڈا جیسے سیاسی ہتھیار کا استعمال پاکستان میں ماضی سے چلا آرہا ہے مگر اختیار کو ایٹم بم بنانے کا اعزاز جس سیاسی جماعت کے پاس ہے، اس کا نام لیے بغیر بھی سب کو معلوم ہے۔ماضی میں جو کچھ ہو گیا سو ہو گیا مگر افسوسناک صورتحال کچھ یوں ہے کہ اب ہر جماعت نے باضابطہ طور پر اپنے میڈیا سیل قائم کر دیے ہیں جس کے سبب گمراہ کن خبریں زبان زد عام ہو کر جھوٹ کے بازار میں سرعام سچ کے منہ پر تھپڑ مارتی ہیں۔غلط کو غلط کہنے کی بجائے اب ہماری توانائیاں اس بات پر صرف اور رہی ہیں کہ کس طرح ہم اپنے اپنے غلط کا دفاع کریں۔یہ سچ ہے کہ پاکستان کی معاشی حالت، سیاسی صورتحال، معاشرتی رویے، سماجی اقدار تاریخ کی اس تنزلی کا شکار ہیں، جس کے اثرات نہ صرف پاکستان میں بسنے والے آج کے لوگوں پر بلکہ آنے والی نسلوں پر بھی بری طرح پڑ رہے ہیں۔مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ اس معاشرے میں سے غلط کو غلط کہنے کی روایت دم توڑ جائے، نہ صرف روایت دم توڑ جائے بلکہ اس غلط کا دفاع کرنے کے لئے بھی کوئی نہ کوئی مکالمہ ایجاد کر لیا جائے اس معاشرے کا جنازہ پڑھنے میں کوئی شک باقی نہیں رہ جانا چاہئیے۔حقائق کو جاننا تو درکنار، اب تو حقیقت بولنا بھی مشکل تر ہوتا جا رہا ہے، مثلا مہنگائی کی ہی مثال لے لیں، جو جماعتیں آج حکمران بنی بیٹھی ہیں وہ ماضی میں مہنگائی پر نہ جانے کہاں کہاں سے ایسے بیانات ڈھونڈ کر لاتے تھے کہ کلیجہ منہ کو آنے لگتا تھا۔ اسی دوران حکمران جماعت مہنگائی کی فضیلت بیان کرنے کے لیے نہ جانے کن کن کونوں سے اپنی معصومیت اور بے گناہی ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ وجوہات تراش لاتی تھی اور اب بھی صورتحال یہی ہے مگر حکومتی اور اپوزیشن بینچوں پر ممبران کے چہرے بدل چکے ہیں۔اب بھی وقت ہے کہ ہمیں بطور پاکستان کے شہری معاشرے کی فلاح و بہبود، تعمیری مباحثوں اور میرٹ پر تنقید کو فروغ دینے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ناکہ سیاسی پارٹیوں اور اسٹیبلشمنٹ کی زبان بول کر مزید اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل تباہ کرنا چاہئے۔ اس تباہ ہوتے ہوئے معاشرے کو ابھی درست سمت نہ ملی تو سوچ کے تباہی وہ مناظر پیش کرے گی جو دنیا میں کوئی ایٹم بم بھی شاید نہ پیدا کر سکے۔
٭٭٭