آپس کی لڑائی جگ ہنسائی

0
17
جاوید رانا

ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں ایک عالمگیر حقیقت کی نشاندہی کی تھی کہ کسی بھی ملک کی اصل طاقت اس کے عوام ہوتے ہیں اور کوئی حکومت یا ریاست خواہ کتنی بھی مقتدر ہو عوام کی سپورٹ اور خواہشات کے برخلاف اگر عمل پیرا ہو تو اس کا نتیجہ اس ملک ہی نہیں عالمی سطح پر بھی قابل قبول نہیں ہوتا اور یا تو اس اقدام کے انقطاع پر ہوتا ہے یا پھر ذلت و رسوائی اور توڑ پھوڑ بلکہ تقسیم کا شکار ہوتا ہے۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ دور کیوں جائیں وطن عزیز کا71ء میں دولخت ہوجانا اسکی واضح مثال ہے۔ بنگلہ دیش کا وجود میں آنا عوام کی خواہش و مینڈیٹ کے خلاف اس وقت کی مقتدرہ و اشرافیہ کی من مانی اور عوامی مینڈیٹ کی تحقیر کے نتیجے میں ہونے والی تحریک اور اس میں ازلی دشمن بھارت کی دخل اندازی و مکتی باہنی کا کردار تاریخ کا وہ بدنما داغ ہے جو پاکستان قوم کے ذہنوں سے کبھی بھی نہیں مٹ سکے گا۔ قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ ہمیں یہ سانحہ اس وقت کیوں یاد آیا جب دنیا بھر میں پاکستانی77ویں یوم آزادی کی خوشیاں منا رہے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ کیا حقیقت میں یہ اس وطن کی آزادی کی خوشی ہے جو1947ء میں ظہور میں آیا تھا یا اس بچے کھچے پاکستان کی جو 71ء میں دنیا کے نقشے پر رہ گیا تھا۔ دوسری بات یہ کہ وطن عزیز کے موجودہ حالات کیا کسی ایسی ڈگر پر ہی نہیں ہیں جو70ء کے انتخابی مرحلے پر پیش آئے تھے۔ اس وقت بھی مقتدرہ نے عوام کے اکثریتی مینڈیٹ کو ٹھکرا کر ان کے لیڈر کو حق حکمرانی سے محروم کیا تھا اور آج بھی عوامی مینڈیٹ سے سرفراز رہنما کو اپنے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ فرق یہ ہے کہ71ء کا لیڈر بھارت کے ہاتھوں میں کھیل گیا جبکہ آج کا عوام کا قائد پاکستان کا وفادار ہے اور وطن کے تحفظ اور حقیقی آزادی و قانون کی حکمرانی کے لئے اپنی جان دینے کو تیار ہے اور کسی ایسے اقدام کے حق میں ہرگز تیار نہیں جو عوام اور وطن کے مفاد کے خلاف ہو۔ حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں وہ اس امر کا اشارہ دے رہے ہیں کہ وطن عزیز پھر اداروں کے مابین متنازعہ مئوقف کے سبب جمہوری عمل سے محروم ہونے جارہا ہے اور جلد ہی ایمرجنسی یا مارشل لاء کی زد میں آنے والا ہے، بعض حلقوں کے مطابق نوبت جنرل ضیاء کے دور کی طرح ایک قبر اور دو افراد تک پہنچ گئی ہے۔ اُدھر محکوم حکومتی ٹولہ نااہلی اور آرٹیکل6کی راگنی الاپ رہا ہے لیکن کیا موجودہ صورتحال اسکی متحمل ہوسکتی ہے؟ عدالتی و مقتدرہ تنازعہ تو اپنی جگہ، عوامی شعور اور عالمی ابلاغ یقیناً70کی دہائی کے مقابل جتنے فعال ہیں اس طرح کی کوئی بداعمالی ناممکنات میں ہی ہوگی۔ ہماری مقتدرہ کو اپنے رویوں اور اقدامات پر نظرثانی کرنا چاہئے، ملک و عوام کے تحفظ کے ذمہ داروں کو سیاسی موشگافیوں، عوام مخالف ہتھکنڈوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی اصل ذمہ داری نبھانا ہوگی۔ پاکستان دشمنی کا بھوت نہ صرف ہماری سرحدوں اور ملک کے اندر دہشت گردی اور قتال میں سرگرم ہے، مادر وطن کے بیٹے آئے دن جام شہادت نوش کر رہے ہیں۔ پاکستان دشمنی کا ہنگام بیرونی ممالک میں بھی جاری ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے پاکستان کے احسانات تلے دبے امریکہ کے قبضے سے پاکستان کے طفیل آزادی پانے اور راہداری کے ذریعہ زندگی کی تمام آسائشیں حاصل کرنے والے افغانیوں کی احسان فراموشیوں کی ایک طویل فہرست ہے بودو باش سے کھیل اور تعلقات میں نفرت کے اظہار میں ملوث افغانیوں نے فرینکفرٹ میں پاکستانی قونصل خانے پر جو حملہ کیا وہ انسانیت سفارت اور تعلقات کی بدترین توہین ہے۔ پتھرائو غلیظ نعرے اور ہمارے پرچم کو پائوں تلے روندے جانا کسی بھی پاکستانی کے لئے ناقابل برداشت ہے، پاکستان کے محافظوں کے لئے کس طرح برداشت کیا جاسکتا ہے۔ سفارتی احتجاج کرنا یا جرمن حکومت سے تحقیق و ذمہ داروں کو انجام تک پہنچانا یقیناً معروضی امر ہے مگر کیا یہ ہماری قومی کمزوری نہیں اور کیا یہ اس سچائی کا مظہر نہیں کہ ہم اپنی اندرونی کمزوریوں کے سبب ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ہم پھر یہی بات دہرائیں گے کہ اصل طاقت عوام ہوتے ہیں اور ریاست ہو یاحکومت عوام سے کٹ کر عمل کا نتیجہ کمزوری اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔
ربط باہم ہو، محبت ہو، رواداری ہو
زندہ قوموں کی ہُوا کرتی ہے تصویر الگ
٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here