اولمپکس کے مقابلوں میں حصہ لینے والے ہزاروں ایتھلیٹس کے مابین ایک ایسی لڑکی بھی موجود ہے جو عملی زندگی میں ایک حقیقی ہیروئین ہے۔ یہ ہے شام سے تعلق رکھنے والی یوسرا مارڈینی ، لیکن آج اِس مظلوم لڑکی کا نہ کوئی اپنا وطن ہے ، اور نہ کوئی اپنا گھر ۔ مارڈینی یو این ایچ سی آر کے ماتحت اُس ریفیوجی اولمپک ٹیم میں شامل ہے جس میں 29 ایتھلیٹس 12مقابلوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
یوسرا مارڈینی کا کارنامہ انسانی زندگی کو موت کے منہ سے بچانا تھا۔ وہ کھلے سمندر میں کود کر ڈوبنے والی ایک بوٹ کو سٹئیرنگ کرکے ساحل تک لانا تھا۔ اُس بوٹ پر وہ خود بھی شام سے فرار ہونے والے پناہ گزینوں کے ساتھ سوار تھی۔ شام کی جنگ کے دوران 2015 ء میں مارڈینی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر اپنے گھر ڈارییا ، دمشق کے نواحی علاقے شام میں نہیں رہ سکتی ہے۔ اُس کے والد عزت جو شام کی نیشنل ٹیم کی جانب سے ماضی میں اولمپک میں تیراکی کے مقابلے میں حصہ لے چکے ہیں ، اُن کی حتی الامکان کوشش تھی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو بھی اُس مقابلے میں حصہ لینے کیلئے تیار کرسکیں، لیکن اب اُن کی ساری امیدوں پر پانی پھر چکا ہے ۔ اُن کا وطن اُن کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔
ترکش کے ساحلی علاقے کو خیر باد کہنے کے پندرہ منٹ بعد ہی مارڈینی کی بوٹ جس پر وہ سوار تھی اور جسے اسمگلرز آپریٹ کر رہے تھے ، کا انجن کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ بوٹ پر 20 افراد سوار تھے جبکہ گنجائش صرف7 افراد کی تھی۔ لوگوں نے اپنے سازو سامان کو سمندر میں پھینکنا شروع کر دیا تھا۔ مارڈینی کے پاس اِس کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا کہ وہ سمندر کے ٹھنڈے پانی میں اپنی بہن سارہ کے ساتھ کود پڑے، اور بوٹ کو اپنے پیر اور ہاتھ کے سہارے کھینچتے ہوئے اپنی منزل کی جانب رواں دواں رکھے۔2 اور ریفیوجی بھی بعد ازاںاُنکے ساتھ شامل ہوگئے تھے اور بوٹ کو یونان کے جزیرے لیزبوز پر لنگر انداز کرنے میں بالآخر کامیاب ہوئے۔اگرچہ مارڈینی فی الحال تیراکی کے مقابلے میں ایڈوانس حد تک نہ جاسکی ہے ، لیکن وہ جرمنی میں اپنی تربیت کو جاری رکھا ہے۔اُس کی بہادری کا چرچا اولمپک ولیج میں زبان زد عام ہے۔
قطع نظر بہادری کی اِس داستان کے ہماری اولمپک ٹیم کا چرچا ہر ہم وطن کے زبان زد عام ہے۔ ہماری پرانی خصلت ہے کہ جب بھی ہمارے ایتھلٹس اولمپکس میں شکست کھا جاتے ہیں تو ہمارا یہی گلہ ہوتا ہے کہ اگر اِس بندے کو حکومت کی ذرہ برابر بھی سرپرستی حاصل ہوجاتی یا اُسے ٹریننگ کیلئے بیرون ملک بھیج دیا جاتا تو آج اُس کے گلے میں بھی سونے کا تمغہ چمک رہا ہوتا۔ یہ اچھی بات ہے کہ ہم ایتھلیٹس کو براہ راست مورد الزام نہیں ٹھہراتے اور نہ ہی میں اُن لوگوں میں شامل ہوں جو کھلاڑیوں یا ایتھلیٹس کا مذاق اُڑاؤں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جو لوگ ایتھلیٹس نہیں ہوتے ہیں یا جنہیں اسپورٹس سے ذرا برابر دلچسپی نہیں ہوتی وہ اُن کا مذاق اُڑاتے ہیں۔وہ کرکٹ کے کپتان کو یہ لعن طعن کرتے ہیں کہ ارے وہ، وہ تو بیٹ یوں گھمارہا تھا جیسے سڑک پر جھاڑو دے رہا ہو، ویٹ لفٹر کو یہ طعنہ دیتے ہیں کہ150 پونڈز کیا ، اُس کی تو صرف 50 پونڈز اٹھانے میں ہی ہوا نکل گئی تھی اور سوکر کے کھلاڑی کے خلاف یہ شکایت ہوتی ہے کہ کِک ایسی لگائی تھی جیسے گول کیپر کو کیچ دے رہا ہو۔
بہرکیف مجھے تو صرف عرض یہ کرنا ہے کہ آج جو حضرات ہمارے ایتھلیٹس کو یہ کہہ کر دلاسا دے رہے ہیں کہ شکست کھانے میں قصور اُن کا نہیں ملک کے ارباب حل و عقد کا ہے، تاہم وہ ہر مرتبہ اِسی طرح اولمپکس میں جاتے رہیں اور کوشش کرتے رہیں۔ کوشش کرنے میں مضائقہ کیا ہے۔ اب آپ مثال لیجئے پاکستان کے ویٹ لفٹر طلحہ طالب کی جنہیں 147.71 پونڈز وزن اٹھانے کے مقابلے میں حصہ
لینا تھا۔ جس کے ایک مقابلے میں اُنکا رینک دوسرا اور دوسرے میں پانچواں تھا۔ یہ محض شومئی قسمتی ہے کہ وہ مقابلہ جیت نہ سکے۔ آپ کی اطلاع کیلئے طلحہ طالب نے پاکستان کی ٹیم کی پہلی مرتبہ اولمپکس میں نمائندگی کی تھی۔ ملک میں اتنے زیادہ پہلوان اور تلنگے موجود ہیں آخر وہ کس کام کے ہیں؟
بیدمنٹن کے مقابلے میں بھی ایک پاکستانی خاتون ماحور شہزاد نے پہلی مرتبہ اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ اُنہوں نے بھی انتہائی عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا ۔ اُن کا مقابلہ جاپان کی یاما گوچی سے تھا ۔ تاہم وہ مقابلہ کے دوسرے اسٹیج پر نہ پہنچ سکیں اور کراچی آکر یہ بیان دے دیا کہ پاکستان میں اُن کے مخالفین اُن سے بہت حاسد ہیں ، اور وہ پٹھان ہیں۔ پتا نہیں ماحور شہزاد کو کس پٹھان سے کب واسطہ پڑگیا تھا؟
پاکستان کی نمائندگی اور بھی دوسرے ایتھلیٹس کر رہے ہیں لیکن اُن سبھوں کی حالت پتلی ہے۔ کسی کا نشانہ ٹارگٹ سے ایک گز کے فاصلے پر جاکر لگ رہا ہے، اور کوئی جذبہ اخوت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوے پچھڑ جانے کو ترجیح دے رہا ہے۔ مختصراًعرض یہ ہے کہ بات وہی صفر جمع صفر برابر صفر پر ختم ہونی ہے اور ہمیں پھر ایک ماہ تک گلہ و شکوہ کے بعد خواب خرگوش میں ڈوب جانا ہے۔
ٹوکیو اولمپکس نے بہت سارے دوسرے ٹورنامنٹس ، کرکٹ اور سوکر کے میچوں کو نگل لیا ہے۔ اُن ٹورنامنٹس میں کوپا اورو سر فہرست ہے۔ گذشتہ ہفتے اِس کے تحت کھیلے جانے والا قطر اور امریکا کے مابین سوکر کا میچ انتہائی شور شرابا ، جوش و جذبے کا مظہر تھا۔ تاہم قطر کی ٹیم نے گذشتہ میچوں میںجتنے شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا تھا اُسکے برمخالف سیمی فائینل میں اُس کا کھیل انتہائی مایوس کُن رہا، حتی کہ قطر کی ٹیم کے کپتان نے پینالٹی کی ایک کِک کو بھی مِس کردیا ۔ قطر کو امریکا کے مقابلے میں ایک گول سے شکست ہوگئی ، اور میکسیکو کو فائینل میں امریکا کے ہاتھوں ایک گول سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔بلا شبہ دونوں ٹیموں نے انتہائی گھٹیا کھیل پیش کیا تھا۔