امریکہ اور اس کی اتحادی افواج افغانستان میں اپنی ناکامی کے بعد اپنا بوریا بستر باندھ کر وہاں سے نکل چکی ہیں’ ان افواج نے طویل عرصے تک سرزمین افغانستان پر فوجی کارروائیاں کیں مگر ہر محاذ پر ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس ناکامی کے بعد امریکہ خطے میں اپنی نئی ڈپلومیسی مرتب کر رہا ہے جس کے تحت افغانستان میں خانہ جنگی کے لیے راہ ہموار کی جائے گی۔ اس کے اثرات خطے میں ایک نیا رخ اختیار کریں گے یقینا پاکستان اس سے متاثر ہوگا۔ امریکی منصوبہ ہی یہ ہے کہ خطے میں کسی طور پر بھی امن قائم نہ ہو۔ امریکہ کے سینئر صحافی Webster G.Tarpley نے اپنی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ میں جس امریکی منصوبہ کے بارے میں انکشاف کیا ہے اس منصوبے کے تحت امریکی سی آئی اے پاکستان کو تین یار چار حصوں میں تقسیم کر کے خطے میں بھارتی بالادستی قائم کروانا چاہتی ہے۔ اس ناپاک منصوبہ پر نہ صرف سی آئی اے بلکہ بھارتی خفیہ ایجنسی را اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد مل کر منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ افغانستان میں یہ تینوں خفیہ ایجنسیاں برابر عملی طورپر اپنا نیٹ ورک قائم کئے ہوئے ہیں۔ Destruction of Pakistan کے نام سے جو منصوبہ تیار کیا گیا ہے اس کے تحت بلوچستان میں خفیہ طور پر بلوچ قبائل اور دوسری جانب پشتون قبائل اور اسی طرح سندھ میں بھی پاکستان مخالف شورش برپا کرنے کے لیے بے پناہ سرمایہ فراہم کیا جا رہا ہے۔ مقامی سطح پر پاکستان مخالف عناصر آلہ کار کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔ ایرانی بلوچی بھی اس مصوبے میں شامل ہیں’ چین جوکہ ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے ممالک تک معاشی کوری ڈورپاکستان کے راستے لانا چاہتا ہے اسے ناکام بنانے کی خاطر پاکستان میں سیاسی اور معاشی طور پر غیر مستحکم صورت حال پیدا کرنا خفیہ منصوبہ بندی کا اہم حصہ ہے۔ امریکہ کسی طور پربھی سرزمین پاکستان پرنہ تو فوجی کارروائی کرنے کی جرأت کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی حوالے سے اپنی ڈپلومیسی میں اب کامیاب ہو سکتا ہے اس کی بڑی وجہ ایک تو عمران خان کی موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی ہے اور دوسرا پاکستان کا وہ ایٹمی پروگرام ہے جوکہ پاکستان کی سلامتی کا ضامن ہے اس کے علاوہ افواج پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا لوہا عالمی سطح پر منوا چکی ہیں اور اس جنگ میں فوج کے جوانوں سمیت افسران نے بھی بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ ان حالات میں اب پاکستان اپنی پوزیشن مضبوط بنا چکا ہے افواج پاکستاان اب پاکستان دشمن قوتوں کا ہر محاذ پر مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ یقینا اب سرحدوں پر خطرات منڈلا رہے ہیں۔ پاکستان کے اندربھی خفیہ ہاتھ سرگرم عمل ہیں اس کے باوجود وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کی کسی بھی پالیسی کو سفارتی اور عسکری سطح پر ماننے سے دو ٹوک انداز میں انکار کر کے پاکستان کے وقار کو بلند کردیا ہے۔ اب مستقبل میں ایک مستحکم اور مضبوط حکومت پاکستان کی ضرورت بن چکی ہے۔ مملکت پاکستان کا سربراہ وہ ہونا چاہیے جوکہ واقعی قائدانہ صلاحیتوں کا حامل ہو اور نڈر بھی اور پھر دلیر بھی جوکہ پاکستان کی آزادانہ خارجہ پالیسی لے کر دنیا میں پاکستان کی نمائندگی کرسکے نہ وہ کرپٹ ہو اور نہ ہی اپنے ذاتی مالیاتی مفادات کو مدنظر رکھ کر ملکت کے امور چلائے ان تمام خوبیوں کی حامل شخصیت اس وقت عمران خان کی شکل میں پاکستان کو میسر ہے اسے ہر سطح پر مکمل طور پر قومی مفادات کی خاطر بھرپور تعاون دیا جانا چاہیے۔ تمام قومی ادارے ان کے ساتھ عملی تعاون کو یقینی بنائیں اور ماضی کی سیاسی وابستگیوں کوبالائے طاق رکھ کرقومی مفادات کو مقدم جانیں۔ آنے والے دن جوکہ خطے میں نئی تبدیلیاں لے کر آ رہے ہیں کیونکہ امریکی فوجوں کی افغانستان سے واپسی کے بعد جس نئی ڈپلومیسی کا آغاز ہونے جا رہا ہے اور امریکہ ماضی کی طرح اپنی جارحانہ پالیسیاں خطے میں لانا چاہتا ہے تاکہ پاکستان غیر مستحکم ہو۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پرمالیاتی سہولتوں کی بندش کے لیے بھی دبائو بڑھایا جائے گا۔ پاکستان پر معاشی طورپر مسائل پیدا کر کے پاکستان سے اپنی شرائط منوائی جائیں۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ کی ہمیشہ ہی سے یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ ہر اس ریاست پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے کہ جہاں امریکی پالیسیوں کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ویت نام کو تباہ و برباد کر کے امریکہ وہاں سے بری طرح ناکام ہوا پھر اسی امریکہ نے کیوبا میں بھی مداخلت کی۔ کوریا (ڈی پی آر) کے ساتھ بھی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے محاذ آرائی ہوئی۔ اس کے علاوہ ایران کے ساتھ بھی تنازع خطرناک حد تک بڑھتا رہا اور پھر عراق’ لیبیا’ شام’ یمن اور مصر میں جو کچھ ہوا اسے بھی پوری دنیا نے دیکھا کس طرح لیبیائے صدر معمر قذافی کو منظر عام سے ہٹایا گیا۔ اس میں برابر برطانیہ نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ اسی طرح عراق میں صدام حسین کو جس طریقے سے ہٹایا گیا۔کیمیائی ہتھیاروں کی عراق میں موجودگی کا بہانہ بنا کر امریکہ اور برطانیہ عراق پر فوجی کارروائی کے لیے چڑھ دوڑے اور عراق کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ بعد میں برطانوی سائنس دان DR David Kelly نے عراق کے بارے میں اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا کہ عراق کی سرزمین پر کسی بھی جگہ پر کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی نہ تھی۔ ڈاکٹر ڈیوڈ کیلی خود عراق جا کر اس بارے میں اعلیٰ سطح کی تحقیق کر کے واپس لوٹے تھے ان کے اس انکشاف کے بعد وہ دوسرے دن اپنے گھر کے باہر ایک پارک میں پراسرار حالت میں مردہ پائے گئے تھے۔ اس موت کو برطانوی حکومت نے خودکشی کا نام دے کر اس معاملے کو ختم کردیا تھا مگر وزیراعظم ٹونی بلیئر نے عراق پر فوجی جارحیت کے حوالے سے برطانوی قوم سے باضابطہ طور پر معافی مانگتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ برطانوی خفیہ اداروں نے عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کے حوالے سے غلط انفارمیشن فراہم کی تھی۔ اس میں کہا تھا کہ عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کا کوئی وجود نہ تھا۔ پھر بھی امریکہ اور برطانیہ نے عراق پر حملہ کردیا جوکہ سراسر جارحیت تھی۔ افغانستان میں جن وجوہات کی بنا پر امریکی افواج اپنے اتحادی ممالک کی افواج کے ساتھ جس مشن پر داخل ہوئی تھیں اس میں ان کو بری طرح ناکامی ہوئی لیکن امریکہ نے خطے میں چین کی معاشی اور تجارتی سرگرمیوں سے خوفزدہ ہو کر پورے خطے کو جنگ کے میدان میں بدلنے کی حکمت عملی طے کرلی ہے۔ افغانستان میں اس وقت بھارت کا اثر و رسوخ اپنی جگہ پر ہے اور ساتھ ہی امریکہ نے اسرائیل کو بھی بھارت کے علاوہ افغانستان میں رسائی دلوانے کی غرض سے جس ڈپلومیسی پر عمل کیا ہے یہ اس خطے کے لیے تباہ کن نتائج لے کر آئے گی۔ مسلم ممالک کا اسرائیل کو سفارتی سطح پر تسلیم کرلینا بھی امریکی منصوبہ بندی کی اہم کڑی ہے یعنی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسی مسلم ریاستوں میں اسرائیل کو کھلی رسائی دلوانا مسلم اُمہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا اور ان ممالک میں تفرقہ پھیلا کر انہیں کمزور کرنا ہے۔
٭٭٭