بحریہ ٹائون میں جو کچھ ہوا وہ پورے ملک کے ان تمام اداروں کے منہ پر ایک زناٹے دار تماچہ ہے۔جنہوں نے کراچی میں خوف کی فضا کو ختم کرنے کے لیے یہاں کی مقامی قیادتت کو اپنی بھرپور طاقت سے کچلنے کی کوششیں کی۔بحریہ ٹائون سے انتہائی قریب رینجرز کا ہیڈکوارٹر ہے۔جن کو کراچی کا غم سب سے زیادہ ہے اور وہ برسوں سے کراچی کی رکھوالی کے لیے موجود ہیں۔نہ ہی کراچی سے بھتہ خوری لوٹ مار ختم ہو رہی ہے۔بلکہ کرائم اور بڑھتے ہی جارہے ہیں۔اور وہ اپنی جائیدادیں بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ رینجرز بھی اس سارے جلائو گھیرائو کے سین سے مکمل غائب نظر آئی۔بحریہ ٹائون کی اپنی سکیورٹی جوکہ ریٹائرڈ فوجیوں پر مبنی ہے۔اور اکثر وبیشتر بحریہ ٹائون کے مکینوں پر ہی دھونس اور بدمعاشی دکھاتی نظر آتی ہے۔وہاں سے بھاگ جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی اور بحریہ ٹائون میں لوگوں کی املاک لوٹنے اور جلانے کے لیے سندھی قوم پرستوں کے ہاتھوں میں دے دی گئی۔یہاں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر یہ سب کچھ کراچی کے ہی بحریہ ٹائون میں کیوں ہوا اور وہ زمینیں جوکہ خود سندھی اسٹیبلشمنٹ نے سندھ کے مختلف علاقوں میں ملک ریاض کو سستے داموں الاٹ کردیں جس میں لوگ کہتے ہیں کہ ملک ریاض کے ساتھ زرداری صاحب30%سے پارٹنر ہیں۔اور70%ملک ریاض کا حصہ ہے۔جس کے عوض لاہور میں کروڑوں کی مالیت کا بلاول ہائوس ملک ریاض نے بنا کر دیا۔آواری ہسپتال کے پیچھے زرداری ہائوس بھی ملک ریاض نے بنا کردیا۔بحریہ ٹائون خالی کروانے کے لیے رائو انوار کو ایس ایس پی بنایا گیا کیونکہ وہاں پر کچھ سندھیوں نے زمینیں بیجنے سے انکار کردیا تھا۔جس کی وجہ سے رائو انوار نے وہ زمینیں خالی کروائیں ۔جہاں بحریہ ٹائون بنایا گیا اور اچانک یہ کیا ہوا کہ سندھ کے مختلف اضلاع سے وہاں لوگوں کو بلایا گیا اور ہماری انٹیلی جنس جو دنیا کی نمبرون ایجنسی ہے۔اس کو پتہ ہی نہیں چلا کہ یہ لوگ اندرون سندھ سے بسوں میں بھر کر کہاں جارہے ہیں۔سندھ پولیس تو سندھ گورنمنٹ کے ماتحت ہے لیکن رینجرز تو وفاق کے ساتھ ہوتی ہے کیا اس کے پیچھے ملک ریاض کو کوئی سبق دیا جانا مقصود ہے۔ملک ریاض نے جب یہ زمینیں خریدی تھیں اور ایک بہترین پروجیکٹ دیا اب جبکہ وہاں لوگ آباد ہوگئے ہیں۔تو قوم پرست سندھیوں کو اپنی زمینیں خالی کرانے کا خیال آیا ہے۔پندرہ سال سے خاموشی اختیار کی ہوئی تھی اور اب ہوش آیا ہے اور اپنی زمینیں خالی کروانے کے لیے لوگوں کو دھمکیاں دی گئی ہیں کہ ہماری زمینیں خالی کرو اور کھلے عام وہاں سندھو دیش کے نعرے لگائے گئے املاک جلا دی گئیں۔لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی نہ ہی ہماری حکومت کے کسی وزیر اور نہ ہی ہمارے کسی میڈیا نے اس پر آواز اٹھائی ہمارے وزیراعظم صاحب بیرون وملک پاکستانیوں سے ملک میں سرمایہ لگانے کی بات کرتے ہیں۔جہاں پر اپنے ہی لوگوں کی زندگی حرام کر دی گئی۔وہاں کس طرح بیرون وملک رہنے والا پاکستانی کسے محفوظ رہ سکتا ہے۔اب تو ہی ڈرہے کہ کب اورکون کہاں سے آئیگا اور انکا گھر خالی کروائے۔اب ایک بات تو یہ لکھنا ضروری ہے کہ جس طرح ہماری فوج اور حکومت نے متحدہ قومی موومنٹ پر جو پابندیاں لگائی ہیں اور متحدہ قومی موومنٹ کو ختم کر دیا ہے۔اس واقعہ کے بعد اگر حکومت نے کوئی اقدام نہ کیا تو علیحدگی کی تحریک پروان چڑھے گی اور ہوسکتا ہے جس طرح سندھی قوم پرست ہتھیار اٹھا کر دھمکیاں دے رہے ہیں۔اور پھر سے مہاجر قوم پرست بھی دوبارہ ہتھیار نہ اٹھا لیں اگر اس وقت متحدہ متحد ہوتی تومجال نہیں تھی کہ اسی طرح بحریہ ٹائون کو آگ لگائی جاسکتی تھی۔اب آگ لگانی تھی تو ان لوگوں کے گھروں میں آگ لگاتے جنہوں نے یہ زمینیں الاٹ کیں تھیں۔جو اپنا حصہ لے کر بیٹھے ہیں ملک ریاض نے جو یہ زمینیں خرید کر بیچ دی ہیں اور اپنا منافع لے کر بیٹھا ہوا ہے اس نے ہمارے ملک میں جس طرح کنٹرکشن کا جال بچھایا ہے اور جتنے بھی پروجیکٹ کیے ہیں وہ بہت کامیاب رہے ہیں۔اب جو لوگ وہاں رہ رہے ہیں جنہوں نے اپنی ساری جمع پونجی ان فلیٹوں میں لگا دی ہیں۔اب ان سے ان کا حق چھینا جارہا ہے۔اور سب تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔اور یہ سب کچھ کراچی میں ہی کیوں ہورہا ہے۔غریب سندھیوں کو ان کے حقوق نہیں ملے اس پر احتجاج نہیں ہوتا صرف اور صرف کراچی سب کی آنکھوں میں کھلتا ہے۔کراچی والو اب بھی وقت ہے سب بیدار ہوجائو جس میں پنجابی پٹھان، بلوچ، اور پاکستان سے محبت کرنے والے سندھی بھی شامل ہیں۔سب مل کر کراچی کو بچائو اگر کراچی نہیں رہیگا تو پھر پاکستان کا بھی اللہ حافظ ہے لگتا ہے کہ بحریہ ٹائون پاکستان کا حصہ نہیں ہے۔حکومت کو چاہئے کہ جن لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچا ہے انکا ازالہ کیا جائے۔افسوس ہے ان سیاسی جماعتوں پر جنہوں نے کوئی آواز نہیں اٹھائی اس میں تمام جماعتیں شامل ہیں۔پاکستان کے خلاف نعروں پر بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ایسے لوگوں کو سزائیں ملنی چاہیں۔کھلے عام اسلحہ لے کر لوگ آئے تھے۔یہ کونسی سازش ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ تو ٹریلر ہے ابھی فلم باقی ہے۔
٭٭٭