امریکہ نے کئی ممالک پر حملہ کرکے عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں کیں

0
146

واشنگٹن(ندیم منظور سلہری) نامور امریکی صحافی اور انسٹیٹیوٹ فار پبلک ایکوریسی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نارمن سولومن کی اگلے ماہ آنے والی نئی کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکہ نے کئی ممالک پر حملہ آور ہو کر بین الاقواممی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کیں۔ میڈیا کے ذریعے پہلے اس ملک کے خلاف پراپگنڈہ کیا جاتا پھر اپوزیشن جماعتوں اور فوجی جنرلز کو خرید کر فوجی یلغار کر دی جاتی، امریکہ یہ گھنائونا کھیل طاقت اور ڈالروں کے بل بوتے پر کرتا ہے، ترقی پذیر ممالک میں اپنے مخبروں کے ذریعے حکومتوں کا تختہ الٹنا اس کی پالیسی کا حصہ ہے لیکن اب امریکی عوام کو چاہیے کہ وہ ان عناصر کو بے نقاب کریں جو امریکہ اور دوسرے ممالک کی جمہوریت کو ختم کرنے کی سازشوں میں ملوث ہیں۔ پچھلے تقریباً پچیس سالوں میں امریکہ نے دوسرے ممالک پر جنگوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ذبح کیا ۔ بچوں اور عورتوں کا استحصال کرکے امریکی اسٹیبلشمنٹ اور ان کی انگلیوں پر ناچنے والے حکمرانوں اور دیگر سیاسی افراد نے بھیانک جرم کیا۔ عراق پر حملہ کرکے امریکہ فورسز نے سینکڑوں لوگوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے۔ ستم ظریفی ہے کہ ہمارے پاس امریکی میڈیا آئوٹ لیٹس کے لیے بہادر صحافیوں کی بہت سی مثالیں ہیں جو جنگی علاقوں میں چلے جاتے ہیں، بعض اوقات زخمی ہوتے ہیں، کبھی کبھار اپنی جان بھی گنوا دیتے ہیں لیکن یہ صحافی واپس آ کر اپنے نیوز رومز یا باس سے خوفزدہ ہو کر حقائق عوام کے سامنے نہیں لاتے۔ امریکی حکمران صحافت کو اہم ستون مانتے تو ضرور ہیں لیکن حقائق اور سچ کہنے والوں کی زندگیاں اجیرن بنا دیتے ہیں جس کی زندہ مثال جولین اسانج کی ہے، وہ ایک سچا اور نڈر صحافی، پبلشر، ایڈیٹر اور برطانیہ کی جیل میں بند ہے۔ وکی لیکس نے عراق میں امریکہ کے جنگی جرائم کو خفیہ دستاویزات اور ویڈیوز کے ذریعے بے نقاب کیا جسے ”کولیٹرل مرڈر” کہا جاتا ہے جس میں ایک امریکی فوج کے ہاتھوں عراق میں بہت سے لوگوں کا بے دریغ قتل دکھایا گیا ہے۔ امریکی حکومت کا موقف ہے کہ اسانج خطرناک صحافی ہے اسے قید میں ہی رہنا چاہیے۔ امریکی کارپوریٹ میڈیا، کانگریس اور وائٹ ہائوس کا رویہ روایتی طور پر ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ لکھو اور کہوجو ہم چاہتے ہیں۔ روس کسی ملک پر حملہ کرے تو وہ غلط، اگر امریکہ کرے تو وہ ٹھیک، امریکی پالیسی کا یہ دوہرا معیار موجودہ اور آنے والی نسلوں کو شرمندہ کرتا رہے گا۔ ایک صدی سے بھی زائد عرصہ قبل ولیم ڈین ہاویلز نے ایک مختصر کہانی لکھی تھی جس کا نام تھا ”ایڈیتھا” ۔ یہ کہانی اس وقت لکھی گئی جب امریکہ فلپائن میں لاکھوں لوگوں کو ذبح کر رہا تھا۔ اگر آپ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور لبرل میڈیا کے دیگر آئوٹ لیٹس کے آپٹ ایڈ پیجرز اور ادارتی صفحات پڑھیں تو اپ کو دوہری سوچ اچھی طرح سے نظر آئے گی۔ بلاشبہ ولادیمیر پوٹن ایک جنگی مجرم ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ جارج ڈبلیو بش بھی ایک جنگی مجرم ہے۔ آپ کو کوئی بھی ایسا امریکی اخبار نہیں ملے گا جس میں لکھا ہو کہ جارج ڈبلیو بش نے جھوٹ کی بنیاد پر عراق پر حملے کا حکم دے کر لاکھوں جانیں ضائع کی تھیں وہ واقعی ایک جنگی مجرم تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here