مسجد اور بچے !!!

0
35
رعنا کوثر
رعنا کوثر

مسجد اور بچے !!!

بچے اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیںلیکن والدین کی اکثریت بچوں کے حقوق سے عموماً ناواقف ہوتی ہے۔ ہمارے دین نے تو ان دیکھے اور پیٹ میں پلتے بچے کو بھی کچھ حقوق عطا کیے ہیں۔ ان کی وجہ سے وراثت کی تقسیم رک جاتی ہے اور طلاق کا معاملہ بھی التوا میں پڑ جاتا ہے۔ اس وقت میں ذکر کروں گی جب بچے مسجد جاتے ہیں تو ہم صبر برداشت اور بھلائی کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے۔ بچے جب تین چار سال کے ہو جائیں تو بہت محترک ہوجاتے ہیں وہ طرح طرح کی شرارتیں کرتے اور انوکھے کرتب کرتے ہیں۔ آپۖ اس عمر کے بچوں پر بھی شفقت فرماتے ایسے بچوں کو نہ صرف مسجد میں آنے کی اجازت تھی۔ بلکہ دوران نماز اگر وہ معصوم شرارتیں کرتے شور مچاتے یا عبادت میں محفل ہوتے تب بھی آپۖ مثالی صبر وبرداشت کرتے ،آج کل بھی والدین کا دل چاہتا ہے کے وہ اپنے چھوٹے بچوں کو مسجد لے کر جائیں۔ وہ بہت شوق سے بچوں کو مسجد لے کر جاتے ہیں۔ مگر بچوں کی شرارتوں سے لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔ اور مکمل خاموشی چاہتے ہیں والدین کا کہنا یہ ہے کے اگر ہم اتنی چھوٹی عمر سے بچوں کو مسجد نہیں لے کر جائیں گے تو بچوں کو عادت کیسے پڑے گی مسجد جانے کی اس کے علاوہ امریکہ میں نوجوانوں مائیں بھی کم ازکم جمعہ کی نماز مسجد میں پڑھنا چاہتی ہیں یا پھر رمضان میں مسجد میں جانا چاہتی ہیں۔ وہ بچوں کی وجہ سے گھر میں نہیں بیٹھنا چاہتی ہیں۔ دوسری جانب مسجد نہیں آنے والے بچوں کی شرارتوں سے پریشان ہوتے ہیں اور ان کو اعتراض ہوتا ہے کے بچے پوری مسجدیں دوڑ بھاگ کر رہے ہوتے ہیں اور ان کو کوئی سنبھالنے والا نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ بچوں کو جھڑک دیتے ہیں۔ کچھ والدین پر غصہ کرتے ہیں۔ طویل لیکچر دینے ناراض ہونے سے بہتر ہے بچوں کی غلطیاں بہتر طریقے سے درست کی جائیں۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے”ایک بار صحابہ کرام آپۖ کی خدمت میں کھجور لے کر آئے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ آپۖ کے سامنے کھجوروں کا ڈھیر جمع ہوگیا نزدیک ہی حضرت حسن اور حسین کھیل رہے تھے۔ ایک نواسے نے منہ میں کھجور ڈال لی۔ آپۖ نے ان کے منہ سے خود کھجور نکالی اور فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آل رسولۖ کا کوئی فرد خیرات نہیں کھایا کرتا” آپ خود اٹھے منہ سے کھجور آرام سے نکالی اور وجہ بھی بتا دی۔ یہ حدیث اس بات کو اضح کرتی ہے کے ایک بالغ کو چاہیئے وہ چیننے کی بجائے خود اٹھے اور ہاتھ سے بچے کو خطرے سے دو کردے۔ ساتھ ساتھ اسے محبت پیار سے وجہ بھی بتلا دے۔ اکثر والدین اپنے بچے تو ساتھ میں لاتے ہیں مگر ان کی نگرانی کی بجائے ان کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ بھاگ دوڑیں مشغول ہوتے ہیں بچے تو معصوم ہوتے ہیں ایک بڑے کا فرضی ہے وہ بچے کے ساتھ پیچھے بیٹھے۔ ان کی خود اٹھ کر نگرانی کرے۔ ان کے پیچھے رہے اور اگر بچے تھوڑے بڑے ہیں۔ تو ان کو سمجھاتا بھی رہے مسجد کے اصول اور قواعد بتاتا رہے۔ اگر بچہ چھوٹا ہے نا سمجھ ہے تب بھی ہر ممکن اس نظر رکھے۔ اس کے ساتھ ہی مسجد میں آنے والے نمازی بھی تھوڑی صبر وبرداشت سے کام لیں۔ بچوں کی وجہ سے غمہ کرنے کی بجائے ان کو محبت پیار سے سمجھائیں یا پھر کبھی کبھی ان کے شوروغل کو نظر انداز بھی کردیں۔ میرے تحمل کا مظاہرہ کریں۔ والدین کو بھی اچھے اخلاق سے سمجھائیں۔ کبھی کبھی والدین لوگوں کے رویے سے دل برداشتہ ہو کر بچوں کو دوبارہ مسجد لاتے ہی نہیں ہیں اور خود بھی مسجد کی برکت سے محروم رہتے ہیں۔
بچے تو اتنے معصوم ہوتے ہیں کے ان کے گناہ بھی نہیں لکھے جاتے ہیں ان کی ہر جگہ آمد رحمت وبرکت ہے۔ لہذا دونوں فریقوں یعنی والدین اور مسجد کی انتظامیہ سوچ سمجھ کر تدبیر نکالے تاکے نمازی پریشان نہ ہوں۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here