جشن آزادی پاکستان !!!

0
16

جشن آزادی پاکستان !!!

پاکستان 14 اگست کو معرضِ وجود میں آیا تھا اور یہ وطن بہت قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ اس کے حصول میں اَن گنت جانیں قربان ہوئیں، تحریکِ پاکستان کے کارکنان نے اپنا دن رات ایک کرکے اس وطن کے خواب کو حقیقت کا روپ دیا۔ اکابرینِ تحریکِ پاکستان ہوں یا عام کارکنان’ سب نے مل کر کام کیا اور ہندوستان کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرایا۔ جس وقت آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا اس وقت یہ سب خواب سا لگتا تھا کہ مسلمان انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہوجائیں گے اورایک الگ وطن حاصل کرلیں گے۔ خوش قسمتی سے مسلمانوں کو بہترین قیادت میسر آئی’ جو اپنے مشن کے ساتھ نہایت مخلص تھی اور جس نے اپنی ساری زندگی اس مقصد کیلئے وقف کردی تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے علالت کے باوجود کام جاری رکھا اور کسی کو پتا تک نہ چلنے دیا کہ آپ کی بیماری آخری سٹیج تک پہنچ چکی ہے، ان حالات میں بھی آپ نے مسلمانوں کا مقدمہ خوب لڑا۔مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبال نے جو خواب دیکھا تھا کہ شمال مغربی ریاستوں میں مسلمانوں کی ایک آزاد ریاست ہو’ اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کارکنانِ تحریکِ پاکستان نے اَنتھک محنت کی، مصائب کا سامنا کیا’ قید و بند، لاٹھی چارج کے علاوہ مختلف مسائل اور دھمکیوں کا سامنا بھی کیا لیکن ہمت نہیں ہاری۔ سرسید احمد خان سے سر آغا خان تک’ علی برادران ، نواب وقار الملک، مولانا محمود الحسن، مولانا ظفر علی خان ، مہاراجہ محمود آباد، علامہ شبیر احمد عثمانی، حمید نظامی ، حسرت موہانی، حکیم اجمل خان ، مولانا اشرف تھانوی، مولوی عبد الحق، سر سکندر حیات خان ، حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین، سردار عبد الرب نشتر، آئی آئی چندریگر، نواب بہادر یار جنگ ، سر ظفر اللہ خان ، چوہدری رحمت علی، سر عبداللہ ہارون اور دیگر کئی اکابرین نے اس تحریک میں حتی المقدور حصہ لیا۔ سیاست’ صحافت’ کالت’ ادب اور سماجی کاموں کے ذریعے سے مسلمانوں میں ایک نئی روح بیدار کی گئی۔ تحریکِ پاکستان کی جدوجہد میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ تھیں۔ قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح سب کیلئے ایک مثال تھیں جنہوں نے ساری زندگی تحریکِ پاکستان اور اپنے بھائی کیلئے وقف کردی تھی۔ بی اماں ، بیگم سلمیٰ تصدق حسین، بیگم جہاں آرا، بیگم محمد علی جوہر، بیگم رعنا لیاقت علی خان ، بیگم شاہ نواز، بیگم شائستہ ، بیگم زری سرفراز، بیگم ہدایت اللہ، بیگم نواب اسماعیل اور بیگم قاضی عیسیٰ نے گراں قدر خدمات دیں اور مسلمان خواتین کے اندر آزادی کے جذبے کو بیدار کیا۔ ایک نوجوان طالبہ فاطمہ صغریٰ نے سول نافرمانی کی تحریک دوران 1946ء میں یونین جیک اتار کر اپنے دوپٹے سے بنا مسلم لیگ کا جھنڈا لاہور سول سیکرٹریٹ پر لہرایا تھا۔یہ آزادی ہمیں بہت مشکل سے ملی ہے’ ہمیں اس کی قدر کرنی چاہئے۔جب اگست کا مہینہ شروع ہو’ ہمیں اپنی آزادی کا جشن بھرپورطریقے سے منانا چاہیے تاہم یہ جشن ہمارے معاشرتی اقدار کے مطابق ہونا چاہیے۔ اس مہینے میں ہمیں اپنے بچوں کو اکابرینِ تحریکِ پاکستان کے متعلق بتانا چاہئے، پی ٹی وی نے ایک بہت اچھا ڈرامہ قائداعظم کی زندگی پر بنایا تھا’ وہ ایک بہترین کاوش ہے۔ بچوں کے ساتھ خود بھی یہ ڈرامہ دیکھیں، ان کو دوقومی نظریے سے روشناس کرائیں جو قومی اور تاریخی میوزیم اس وقت کھلے ہیں’ وہاں بچوں کو لے کرجائیں، انہیں ملک کی نظریاتی اور دفاعی تاریخ سے آگاہی دیں۔ کراچی میں پی اے ایف میوزیم ہے جس سے نئی نسل تاریخ کے بارے میں بہت کچھ جان سکتی ہے۔ اسی طرح مونیومنٹ میوزیم اسلام آبادہے جس میں تحریکِ پاکستان کی پوری تاریخ مومی مجسموں کی صورت میں موجود ہے۔ لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں ڈیجیٹل انداز میں نیشنل ہسٹری میوزیم ہے’ان کے ذریعے نئی نسل کو اصل ہیروز کی شناخت کرائی جائے۔بچوں کوسبز اور سفید شلوار قمیص بنا کردی جائے’ ان کو جھنڈے’ جھنڈیاں خرید کر دی جائیں اور ساتھ بیجز اور دیگر چیزیں بھی لے کردیں تاکہ وہ پورا اگست کا مہینہ بھرپور طور سے آزادی کا جشن منائیں، ہمارے بچپن میں یہ ہوتا تھا کہ بچے جھنڈیوں کو گوند کی مدد سے ایک ڈوری پرلگاتے تھے اور پھر پوری گلی کو سجالیتے تھے، ایک گھر سے دوسرے گھر تک جھنڈیوں کی لڑی پہنچانا ایک مشکل کام ہوتا تھا لیکن ہم کرلیتے تھے۔ پھر رات کو موم بتیوں اور چراغوں سے روشنی کرتے تھے۔ اس سارے عمل میں بڑے ہمارے ساتھ ہوتے تھے تاکہ بچے آگ نہ لگالیں، آج ہمارے پاس ان کاموں کیلئے وقت نہیں لیکن کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے بچوں کو بھی اپنے بچپن والا ماحول دیا جائے ، جشن آزادی خدا کا شکر ادا کر کے ہی منایا جا سکتا ہے۔ یومِ آزادی کی صبح نوافل کے ساتھ ہونی چاہیے۔ اس کے بعد تحریک پاکستان کے کارکنان کے ایصالِ ثواب کا اہتمام کرنا چاہیے۔ سفید لباس زیب تن کریں’ اپنے گھر کو سجائیں، سبز ہلالی پرچم لہرائیں مگر شام سے پہلے اتارلیں۔اس وقت ہمارے بچے صرف ٹک ٹاک اور پب جی میں گم ہیں’ انہیں اس دلدل سے نکال کر اصل زندگی کی طرف لائیں۔انہیں اسلامی تعلیمات و معاشرتی اقدار’ دو قومی نظریے، پاکستان اور پاکستانیت اور انسانیت سے محبت سکھائیں تاکہ وہ آگے چل کر اس ملک کی ترقی میں حصہ ڈالیں اور کارآمد شہری بنیں۔ ہم آزاد وطن میں پیدا ہوئے ہیں مگر ہمیں اس کی قدر نہیں ہے، اس کی قدر کریں، یہ یقینا بہت بڑی نعمت ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here