پاکستان کے سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور با اثر فوجی جنرل فیض حمید کی گرفتاری کو لے کر پاکستان میں اس وقت بھرپور چرچا ہے کہ فوج اپنے احتساب میں بڑی سخت ہے اور کسی کے لیے احتساب کا عمل روکا نہیں جا سکتا، خصوصا سمندر پر پاکستانیوں میں تو ایسی خبر سمجھو ہفتے بھر کے لیے موضوع گفتگو کا میسر آ جانے کے مترادف ہے۔بظاہر جنرل فیض حمید کی گرفتاری کسی ہائوسنگ سوسائٹی کیس میں عمل میں لائی گئی ہے مگر تجربہ یہ کہتا ہے کہ جو معاملہ سامنے رکھا جا رہا ہے درحقیقت اس کے پس پردہ کوئی اور کہانی ہے۔کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ کسی ملک دشمنی کے ناقابل تردید شواہد کی وجہ سے انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔ممکن ہے ایسا ہو مگر یوں بھی تو ہو سکتا ہے کہ انہیں ملک دشمنی کے بجائے فوج دشمنی کی بنا پر گرفتار کیا گیا ہویعنی ایک فوجی جرنیل نے اپنے ہی ادارے کے خلاف ایک ایسی سیاسی جماعت کو مضبوط بنا دیا جس کے بعد عوام میں اس مضبوط ریاستی ادارے کے خلاف نہ صرف نفرت پیدا ہوئی ہو بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی مقبولیت میں بھی کمی واقع ہو رہی ہو۔میں نے اکثر اپنے کالموں میں کہا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس سے قبل فوجی اسٹیبلشمنٹ جن سیاسی جماعتوں کو ایوان اقتدار میں داخل ہونے کے لیے جو محفوظ راستہ دیتی تھی، اس میں اس بات کا خصوصی طور پر خیال رکھا جاتا تھا کہ عوام میں مقبولیت کے لیے یہ کوئی ایسا اقدام نہ اٹھائیں جس سے مستقبل میں ان جماعتوں کا راستہ روکنا ممکن نہ رہے، یوں بھی کہہ لیجئے کہ ان جماعتوں کو عوامی ہیرو بننے سے روکنے کے لیے مختلف رکاوٹیں ہر لمحہ کھڑی کی جاتی رہتی تھی مگر پاکستان تحریک انصاف کے معاملے میں ذرا معاملہ اس لیے بھی اُلجھ گیا کہ اس جماعت نے کمال مہارت کے ساتھ عوام میں اپنی مقبولیت اور بیانیہ کی ترویج کی کہ جس میں فوج کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے مکمل ساتھ دیا گیا اور اس کے بعد وہ ساکھ عوام میں گرتی ہی گئی جس کا خصوصی طور پر خیال رکھا جاتا تھا۔فوجی جنرلوں کے باہمی اختلافات نے بھی فوج کہ اس طے شدہ اصول کو کہیں پسے پردہ ڈال دیا۔فیض حمید کی گرفتاری شاید فوجی جرنیلوں کی جانب سے اسی بات کا بدلہ ہے کہ انہوں نے اپنے مجاہدین بھی تحریک انصاف کے حوالے کر دیئے جو مشکل وقت میں ان کا دفاع کیا کرتے تھے۔پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کا کنٹرول اب شاید پاکستان تحریک انصاف کے پاس بھی نہیں، جہاں سے فوج کے خلاف پروپیگنڈا کی انتہا کی گئی جن سچائیوں کو فوجی جنرل سننے کے لیے تیار نہ ہوتے تھے وہ عوام میں خوب پھیلائی گئی۔جنرل فیض حمید نے دراصل وہ کام کیا جس سے جمہوریت کے نام پر سیاسی جماعتوں کی منجی ٹھوکنے کی بجائے انہوں نے اپنی ہی ادارے کی منجی ٹھوک دی۔ظاہر ہے فوج بطور ادارہ تو کافی مضبوط ہے اور آج فیض حمید سے فیض پانے والے جرنیل بھی بے فیض ہوئے نظر آتے ہیں۔
٭٭٭